امید ہیکہ آپ سب بخیر وعافیت سے ہونگے، بندہ بھی خیریت سے ہے…..لمبا عرصہ گزر گیا آپ کی خیریت معلوم کئے ہوئے…..خط لکھنے کیلئے سیاہی میسر نہ تھی تو خون سے ہی خط لکھ رہا ہوں، ویسے بھی آج کل غزہ میں خون پانی کی طرح بہتا ہے…..شاید آپ بھی فلسطین غزہ کی موجودہ صورتحال سے واقف ہونگے، اگر نہیں تو غزہ کے درد و الم کی لرزہ خیز داستان سے ضرور واقفیت حاصل کیجئے اور اپنے کاموں میں مصروف رہئے، جیسے عالم اسلام کے بہادر حکمران ہیں، ویسے بھی بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین مومنوں کا مسئلہ ہے….. خیر…..اللہ کرے کہ آپ اور آپ کے اہل خانہ خیریت سے ہونگے۔
الحمدللہ رمضان المبارک کی آمد ہو چکی ہے اور پہلے عشرہ گزر بھی گیا ہے…..رمضان کا استقبال آپ نے بڑے اچھے طریقے سے کیا ہوگا؟ ہم لوگوں نے بھی اسکا شاندار استقبال کیا…..ویسے بھی پورا غزہ مسلسل اسرائیلی بمباریوں کی وجہ سے ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے، ملبوں پر ہم لوگ بسیرا کررہے ہیں، وہ بھی بے چراغ…..ہر طرف تباہی کی خاک، درو بام کی راکھ اور بارودی دھوئیں کا راج ہے…..لہٰذا بے چراغ اس غزہ میں رمضان المبارک کی رحمتوں نے چراغاں کردیا ہے…..پوری ملت اسلامیہ پر رمضان المبارک کی رحمتیں سایہ فگن ہیں……ہم اہل غزہ بھی جنگ کے سائے تلے، بموں و توپوں کے دہانوں پر اور لاشوں کے درمیان رمضان المبارک کی رحمتیں حاصل کررہے ہیں۔
آپ کے گھر رمضان المبارک میں پڑوسیوں کی طرف سے لذیذ کھانے آتے ہونگے جسے کھا کر آپ کے بچے چین کی نیند سوتے ہونگے…..غزہ کے پڑوسی بھی ہمارے یہاں بڑے بڑے میزائل اور بم گولے بھیجتے ہیں، جسے کھا کر ہمارے بچے موت کی نیند سوجاتے ہیں…..اس بار گرمی کے موسم میں رمضان آیا ہے، آپ گھر والوں کو ٹھنڈا پانی اور افطار میں شربت ضرور پلاتے ہونگے…..ہمارے یہاں گرمی کچھ زیادہ ہی ہے شاید بمباری کی وجہ سے آگ اور اسکے دھوئیں نے موسم کو گرم کر رکھا ہے…..لیکن باوجود اسکے پورے غزہ میں بوڑھے سے لیکر نومولود بچے تک بھی روزہ رکھ رہے ہیں، لیکن صرف سحری اور افطاری کے ثواب سے محروم ہیں…..بڑوں کا تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن بچے ایک قطرہ پانی، دودھ اور ایک ٹکرے روٹی کیلئے شور کرتے ہیں…..لیکن دو تین دن بعد پتہ نہیں وہ خود بہ خود خاموش ہوجاتے ہیں اور دوبارہ شور شرابا تو دور سانس تک نہیں لیتے، لوگ انہیں شہید کہتے ہیں، شاید جام شہادت پی کر انکی بھوک مٹ جاتی ہوگی، گزشتہ چھ مہینوں سے یہی ہوتا آرہا ہے۔
سنا ہیکہ اب رمضان المبارک میں آپ کی مسجدوں میں اے سی اور شاندار لائٹیں وغیرہ بھی لگا دی گئی ہیں تاکہ سکون سے تراویح اور نمازیں ادا کرسکیں…..ہم لوگ بھی الحمد للہ ملبے کے اپر سورج اور چاند کی روشنی میں نماز اور تراویح کا اہتمام کررہے ہیں…..بس کبھی کبھار سحر وافطار اور صلوٰۃ و تراویح کے دوران بمباری ہوجاتی، جس سے روشنائی میں اضافہ ہوجاتا اور کچھ بھوکے جام شہادت پینے لگتے ہیں….. تہجد کی نماز کا بھی اہتمام ہورہا ہے اور خوشی کی بات ہیکہ رمضان کے اس مبارک مہینے میں نماز تراویح کے اضافے کے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں تہجد کے بعد بھی ایک جماعت قائم ہوتی ہے…..بس فرق اتنا ہیکہ اس میں رکوع سجدہ نہیں کیا جاتا اور سامنے کچھ لوگ آنکھ بند کئے ہوئے لیٹے رہتے ہیں…..ٹھیک اسی طرح سے جو گزشتہ چھ مہینوں سے پنچ وقتہ ہر نماز کے بعد ایک اور جماعت قائم ہوتی چلی آرہی ہے، اور باقی سب خیریت ہے…..نصف رمضان مکمل ہوتے ہوتے آخری عشرے کے سلسلے میں ایک مسئلہ درپیش ہے کہ اعتکاف کہاں کریں؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا، کیونکہ ساری مسجدیں شہید ہوچکی ہیں…..بمباری کی وجہ سے نمازوں کی جگہ اکثر بدلتی رہتی ہے اور معتکف کو ایک جگہ کیسے اور کہاں بٹھائیں یہ مسئلہ پیش آرہا ہے…..ویسے علاقے کے کچھ لوگ کہ رہے تھے کہ اس بار وہ اپنی اپنی قبروں میں اعتکاف میں بیٹھیں گے، ان میں سے کچھ نے پہلے عشرے اور کچھ نے دوسرے عشرے سے ہی اس پر عمل کرنا شروع کردیا ہے…..پتہ نہیں بابا جان نے کوئی خواب دیکھا ہے کہ اس بار ہمارا پورا گھرانہ بلکہ پورا غزہ آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا…..حالات بھی کچھ ویسے ہی معلوم ہورہے ہیں۔
آپ سے ایک بات یہ معلوم کرنی تھی کہ چونکہ آدھا رمضان گزرنے کے قریب ہے تو کیا اس رمضان میں بھی آپ کی مسجدوں سے نمازیوں کی کمی ہورہی ہے اور کیا بازاریں آباد ہورہی ہیں؟…..ہمارے غزہ میں بھی ایسے ہی ہورہا ہے…..نمازی دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں، لیکن ہمارے یہاں بازار نہیں بلکہ قبرستان نامی کئی علاقے بن گئے ہیں جو مسلسل آباد ہوتے جارہے ہیں…..اللہ کا کرم ہیکہ یہاں موجود تمام قبرستانوں میں ہمارا حصہ موجود ہے اور ہمارے خاندان کے کئی افراد کو چھ چھ فٹ کی جگہ ملی ہے اور وہ وہیں آرام کررہے ہیں…..چھوٹے بھائی اور چھوٹی بہن رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں ایک جگہ کھیل رہے تھے کہ اچانک انکے پڑوس میں ایک میزائل آ گرا، جس کی وجہ سے بھائی اور بہن کو تھوڑی سی چھوٹ آگئی اور ان کے جسم کے ٹکڑے ہوگئے…..ان کو بھی پڑوس کے قبرستان میں جگہ ملی ہے، ویسے بھی غزہ کے ملبے پر اور مسلمانوں کے دلوں میںانکے لئے جگہ کی کمی تھی…..اور عالم اسلام کی بے حسی پر وہ دونوں بار بار سوالات کرتے تھے، اب وہ آرام کی نیند سو رہے ہیں، بس فکر ہیکہ وہ اپنے قبر میںباری تعالیٰ سے عالم اسلام اور مسلمانوں کی شکایت نہ کررہے ہوں!
ایک خوشی کی بات آپ کو بتانی تھی کہ بڑی بہن حمل سے تھیں، اور کل تراویح کے بعد ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی، جسکا نام فاطمہ الزہراء رکھا…..بہن اور نومولود ننھی سی پری دونوں بھی بنا سحری کے آج روزے سے تھیں، ان کے افطار کیلئے دن بھر کھانا اور دودھ تلاش کررہا تھا…..جب مغرب تک کچھ نہیں ملا تو خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا…..جب گھر میں بہن اور بچی فاطمہ کو تلاش کرنے لگا تو امی نے بتایا کہ عصر بعد ایک چھوٹا سا بم تیری بہن کے کمرے میں آ گرا تھا اور بہت زور کی آواز آئی…..اسکے بعد عزرائیل نامی ایک شخص آیا وہ تمہاری بہن اور بھانجی فاطمہ دنوں کو اپنے ساتھ لے گیا، کہ رہا تھا کہ فاطمہ اور اسکی ماں کو رسول اللہ ؐنے دعوت دی ہے، یہ حبیبؐ کے دسترخوان پر افطار کریں گیں…..ویسے بھی ہمارے پاس روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے…..آپ کے بھائی بہن اور بچے کیسے ہیں ضرور لکھئے گا۔
رمضان المبارک میں نماز تراویح کے بعد آپ کی مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کا اہتمام ہوتا ہوگا، اگر ہوسکے تو اس حدیث کی تشریح تحریر کردینا جس میں کہا گیا ہیکہ ’’مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں، کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی سارا جسم اسکا درد محسوس کرتا ہے‘‘۔ کیونکہ اہل غزہ کے ساتھ امت مسلمہ کا سلوک ایک جسم کی طرح تو نہیں لگتا…..اور ویسے بھی سنا ہیکہ رمضان سے پہلے سلامتی کونسل میں اسلامی ممالک کے کچھ لوگوں نے غزہ کی حالات پر اظہار افسوس کیا تھا…..اگر ان تک میری بات پہنچا سکو تو انکا شکریہ ادا کرنا اور کہنا کہ اس طرح کی رسموں میں خواہ مخواہ وقت برباد نہ کریں…..کیونکہ اقدامات کے بجائے ان مذمتی قرارداد کا کیا فائدہ؟…..ویسے بھی گزشتہ چھ مہینے سے تاحال سلامتی کونسل اور اسلامی ممالک کے ضمیر کی نیند پوری طرح سلامت ہے…..دنیا بس تماشا دیکھنا جانتی ہے اور سمجھتی ہیکہ غزہ میں موت و حیات کی کشمکش جاری ہے، مگر ہم لوگ ہر قیمت اور ہر صورت زندہ ہیں، مردہ تو آپ لاچار دنیا والے ہیں…..ہماری مسجد کے اسپیکر سے یہ اعلان ہوچکا ہیکہ اے اللہ! اب صرف تو ہی ہمارا مددگار ہے۔
بابا کہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کیلئے ہماری اور ہماری نسلوں کی جانیں قربان ہیں، لیکن میرے ایک سوال کا جواب آج تک نہیں مل سکا…..اگر آپ بتا سکیں تو ضرور لکھ بھیجنا، کہ مسجد اقصیٰ کیا صرف فلسطین اور اہل غزہ کا ہی قبلہ اول اور حرم ہے؟…..نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان جس میں حکم دیا گیا ہے کہ حرم اقصیٰ تک پہنچنے کی کوشش کریں، اگر نہ پہنچ سکیں تو مسجد اقصیٰ کے چراغ جلانے کے لیے تیل بھجوانے کا اہتمام ضرور کریں….. لیکن حضور اکرم ؐکے فرمان کے باوجود مسجد اقصیٰ کو روشن اور آباد رکھنے کے لیے تیل بھجوانا تو دور مسلمان اسکا تذکرہ تک کیوں نہیں کررہے اور آج تیل اور تیل کی پیداوار سے چلنے والی اسلامی دنیا کیونکر مسجد اقصیٰ کے چراغ کو بجھانے والوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے؟…..کئی دنوں سے تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے خون جگر سے یہ خط لکھ رہا ہوں…..اس دوران بابا اور امی جان بھی میزائل کا شکار ہوگئے، شاید انہیں دوسرے عشرے میں ہی اعتکاف میں بیٹھنا تھا، کل ہی انکی نماز جنازہ کے ذریعے اعزاز کیا گیا ہے…..مجھے بھی کچھ معمولی سی چھوٹ لگی ہے، ایک ہاتھ اور پیر ضائع ہوچکا ہے، سر سے مسلسل خون جاری ہے لیکن سیائی کا کام کررہی ہے…..دوائی یا دواخانہ کچھ موجود نہیں ہے…..ویسے بھی خط طویل ہوتا جارہا ہے اور وقت بھی کافی ہوگیا، سانسیں بھی رکنے کو کہ رہی ہیں…..اپنی خیریت کے ساتھ میرے سوالات کے جوابات ضرور لکھنا، اگر زندہ رہا تو ٹھیک ہے یا اگر اعتکاف کیلئے مجھے بھی قبرستان جانا پڑ گیا تو روز محشر ملاقات ہوگی…..دعاؤں کا اہتمام ضرور کرنا، مسجد اقصیٰ اور مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کی کوشش کرنا اور دنیا والوں سے اتنا ضرور کہنا کہ اللہ اور رسول اللہؐ کے حضور مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین و غزہ کے ساتھ انکے اس سلوک کا جواب دینا ہوگا…..روز محشر مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین و غزہ انکا دامن نہیں چھوڑے گی…..سنا تھا کہ ماہ مبارک میں اللہ کے فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، فرشتے نصرت لے لے کر آتے ہیں، شاید فرشتوں کی آمد شروع ہوچکی ہے…..کہیں یہ عزرائیل علیہ السلام تو نہیں؟…..کفر کی رات رخصت ہورہی ہے…..ایمان کا سورج چڑھتا جا رہا ہے….. زخم سے خون کے فوارے نکل رہے ہیں…..سانسیں پھول رہی ہیں…..بس اللہ سے ملاقات کا وقت آچکا ہے…..سلامت ہو آپ سب پر، پر سکون رہنا…..اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ!
لاشوں کے شہر غزہ سے آپ کا بھائی
(گرچہ یہ ایک تصوراتی خط ہے لیکن اہل غزہ کے معصوم مظلوموں کی فریاد کی ترجمانی اور عکاسی کرتی ہے، اور اگر کوئی غزہ کا مظلوم اپنا قلم اٹھاتا تو شاید اپنا درد دل انہیں الفاظ میں بیان کرتا، مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
Related posts
Click to comment