مکرمی! مرکزی حکومت کے ذریعہ پیش کئے گئے بل مسجد ، مدارس اور وقف بورڈ کے حقوق پر تاناشاہی کے مترادف ہے۔ بی جے پی حکومت اس بل کے ذریعہ سے وقف بورڈ کی اراضی پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ بل دستور کے مخالف ہے اس لئے اس بل کی بڑے پیمانے پر مخالفت ضروری ہے۔ مرکز ی حکومت کے ذریعہ مساجد ، مدارس وغیرہ معاملات میں زبردستی کی بیجامداخلت آئین کے خلاف ہے۔ حکومت قومی دھرم کو نبھائے، بیروز گاری ، مہنگائی، پچھڑا پن، غریبی ، ریزرویشن پر توجہ مرکوز کرکے سچی دیش بھگتی ثابت کرنے پر دھیان دے جوملک تعمیر وترقی کیلئے ضروری بھی ہے۔
مرکزی حکومت مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں غیردستوری طورپر مذکورہ قوانین کو تھوپنے کی کوشش نہ کرے۔ اس لئے کہ اس ملک کے قانون نے آرٹیکل 26کے تحت مسلمانوں اوردیگر قوموں کو یہ آئینی حق دیاہے کہ وہ اپنے مذہبی ادارے آزادی سے چلاسکتے ہیں اوران کانظم ونسق کرسکتے ہیں۔
لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت وقف ایکٹ کو جس میں ابھی ترمیم کی کوئی ضرورت نہیں تھی اس کو ہی مضبوطی فراہم کرتی تاکہ جو لوگ وقف کی زمینوں میں خورد برد کررہے ہیں یا اس پر قبضہ کررہے ہیں۔ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی۔بجائے اس کے حکومت نے وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنے کی جو کوشش کی ہے اس سے وقف کی جائیداد پر قبضہ کرنے کا راستہ کھل جائے گا اورتمام اختیارات وقف بورڈ کے بجائے ضلع مجسٹریٹ کو حاصل ہوجائیں گے جو اپنے آپ میں نہایت تشویش ناک اورقابل مذمت ہے۔مسلمانوں کی حمایت کا دم بھرنے والے حزب اختلاف سے اپیل ہے کہ وہ اس حساس مسئلے پر حق کیلئے کھل کر آواز اٹھائیں اورمسلمانوں کے دلوں میں صحیح معنوں میں اپنی ہمدردی درج کرائیں۔
previous post
Related posts
Click to comment