Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

بھوپال کا سفر

اب زیادہ دن گزرنے کی وجہ سے بہت سے گوشے چھوٹ جا رہے ہیں، اس لیے کہ ذہن سے اوجھل ہو گئے ، پہلے یہ خیال نہ تھا کہ ان ساری چیزوں کو تحریر میں لے آنا چاہئے۔ ادھر کئی حادثے ایسے ہوگئے جس سے ذہن کافی متاثر ہوا۔ مثلاً مولانا اشفاق اللہ جو جامعہ رحمانیہ کے مدرس تھے۔ ۲۸اگست ۱۹۹۸ء؁ کو انتقال ہوگیا۔ اور وہ بھی بنارس میں ڈاکٹر کے جواب دینے کے بعد گھر لارہے تھے، جون پور اور شاہ گنج کے بیچ راستہ میں ان کا انتقال ہوا۔ میں تو کچھ اسباب کی بنا پر نہ آسکا۔ مگر ممتاز بھائی بعد میں کہنے لگے کہ میں اپنے آپ کو معاف نہیں کرپارہا ہوں۔ وہ آئے اور کچھ بنارسی احباب بھی آئے۔ مگر ان کے سگے سالے بہن کے کہنے کے باجود نہیں آئے۔ ان کا یہ طریقہ دیکھ کر بہت سے لوگوں کو تکلیف ہوئی۔
۲۰۰۰؁ء میں اہلیہ کو پیٹ کا درد اٹھا اور بہت( ہٹیلا)درد۔اس سے پہلے بھی درد ہوتے تھے لیکن اتنا تیز نہیں ہوتا تھا۔ یہ سن کر میں نے ان کو بنارس بلایا اور پہلے ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کو دکھایا ، انہوںنے دودن کی دوا دی اور الٹرا سائونڈ کرانے کے لیے کہا، رپورٹ آنے پر مریض لے کر گئے تو انہوںنے کہا کہ پت کی تھیلی میں پتھری ہے، دو سے۴۰؍پرسنٹ نکلنے کی امید ہے اس کا واحد علاج آپریشن ہے۔ اس کے لیے مختلف ڈاکٹروں سے رائے لی، سب نے آپریشن ہی کہا۔ پھر سوال کیا کہ آپریشن کہاں کرایا جائے۔ اس کے لیے جامعہ کے وکیل بھائی بی ایچ یو لے کر گئے۔ اور اپنے متعارف ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ انہوں نے آپریشن کی جگہ اور ڈاکٹر کی تعین کے سلسلے میں کوئی طے شدہ رائے نہ دی، ماسٹر آفتاب (مرحوم) نے ڈاکٹر اپادھیائے کی رائے دی۔ پہلے ہم اور فوزان ان سے رائے لینے کے لیے گئے ان کا انتظام دیکھا۔ اور گفتگو بھی کی۔ پھر پختہ ارادہ کرلیا کہ آپریشن ہی سے کرانا ہے۔ خاطر زماں میرے سالے موجود تھے۔ دوسرے دن ایڈمٹ کیا۔ انہوں نے کھانا پینا بند کردیا تھا۔ چار بجے کے بعد آپریشن ہوا، ماشاء اللہ کامیاب آپریشن ہوا۔ ایک سسٹر نے پتھری سے بھری ہوئی تھیلی لاکر دی۔ سب نے دیکھا مرچ کے دانے برابر پتھریوں سے پوری تھیلی بھری ہوئی ، میں نے تھیلی کے اندر بعض کو دبایا تو پھوٹ گئی۔ میں نے اس کو لے جا کر بڑی بڑی گھاس میں پھینک دیا۔ ابھی مریض کو بیہوشی تھی۔ والد صاحب اونرا تال ایس ٹی ڈی پر موجود تھے۔ ان کو اطلاع دی۔ ہمارے گھر سے دو لڑکے آفتاب اور عبد العلیم نے کھانا پہنچایا ، آپریشن ہو جانے کی وجہ سے اطمینان ہوا۔ ہم نے اور خاطر نے بھی کھایا، صبح ہوش آیا تو ڈاکٹر نے چائے اور بسکٹ کھلایا، اور دوا کھلائی، ڈاکٹر صاحب نے تو اسی دن مریض کو لے جانے کے لیے کہا، مگر ہم لوگ ایک دن مزید رک گئے، واضح ہو یہ ڈاکٹر منڈوا ڈیہہ میں ہاسپٹل چلاتے ہیں ، اس زمانے میں پیٹ کے آپریشن کے لیے سب سے اچھے مانے جاتے تھے۔ بعد میں ہاسپٹل بھی بہت سے احباب عیادت کے لیے پہنچے۔ اور پھر گھر جامعہ میں آنے کے بعد عیادت کرنے والوں کا سلسلہ رہا۔ یہ آپریشن مشین کے ذریعہ ہوا تھا، جس میں چھوٹا تین سوراخ کرنا پڑتا ہے، الرجی کی وجہ سے زخم بار بار ابھر آئے، کئی بار ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ درمیان میں اور بھی پریشانیاں ہوئیں۔ کھانسی اور دست کا عارضہ ہوا اور علاج چلتا رہا، یہ جولائی اخیر تاریخ تھیں۔ خاطر دس روز کے بعد گھر چلے آئے۔ ہم لوگ جامعہ میں رہے۔ عزیزہ شہناز گھر سے کام کاج اور خدمت کے لیے آئی تھیں۔
اگست ۲۰۰۰؁ء میں کسی تاریخ کو میرے محبوب دوست ڈاکٹر محمود کا انتقال ہوگیا، مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم کے ۱۹۸۲ء؁ سے ناظم تھے، مولوی سلامت اللہ صاحب (میرے پھوپھی زاد بھائی اور مدرسہ کے پرنسپل) نے خبر دی اور مجھے آنے کے لیے کہا، میں نے معذرت کردی اور کہا میرے گھریلو حالات ایسے ہیں کہ میں نہ آسکوں گا۔ بہر حال جامعہ کی تعلیم بند ہونے کے بعد گھر آسکے۔
اسی ستمبر کے مہینے میں ایک میٹنگ ہوئی، جس میں بھوپال سفر کے لیے مجھ کو اور مولوی عبدالمتین مدنی کو نامزد کیا گیا۔ میں نے کہا میں ایک سفر کرچکا ہوں۔ اس وقت میرے گھریلو حالات سفر کی اجازت نہیں دیتے۔ ناظم صاحب نے کہا کہ جب آپ کا نام آگیا ہے تو آپ کو جانا پڑے گا۔ مجبوراً مجھے سفر کرنا پڑا۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۹؁ءکا حادثہ بھی ہوا تھا۔ جاتے وقت اتنا احساس ہوا کہ کچھ لوگ ٹرین میں چپکے چپکے کچھ باتیں کر رہے ہیں مگر ہم لوگوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ کمائنی اکسپریس کا ٹکٹ تھا۔ سرشام مغرب بعد چلی، اور ہم لوگ دس بجے کے آس پاس بھوپال پہنچ گئے۔ اور سیدھے دار العلوم تاج المساجد پہونچے ، مہتمم شیخ ریحان ندوی صاحب موجود تھے، ان کے نام جامعہ کے ڈاکٹر ازہری صاحب کا لکھا ہوا خط تھا۔ انہوںنے پڑھا اور ہم لوگوں کو اپنے نائب کے حوالے کردیا۔ جو تاج المساجد میں بنے ہوئے ایک فلیٹ میں جو مشرقی گیٹ کے جنوب میں بنے ہوئے تھے اسی میں ضرورت کی ساری جگہیں بنی تھیں، مشرق کی جانب دریچے سے روڈ اور ٹریفک نظر آتے اور مغربی کھڑکی سے پوری تاج المساجد نظر آتی تھی، مشرقی جنوبی اور شمالی برآمدے میں کمرے بنا دئے گئے تھے، جو طلبہ کی رہائش گاہ تھی اور شمالی کمروں میں درسگاہیں تھیں۔ آنگن میں تہہ خانہ تھا جو وضوخانہ اور باتھ روم وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مشرقی گیٹ کی شمالی جانب بڑا ہال ہے، جو طلبہ ہفتہ وار انجمن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ خوبصورت جامع مسجد دہلی اور لاہور کی شاہی مسجد کے طرز پر بنی ہے۔ دونوں جانب مغربی حصہ کے شمال اور جنوب اور اونچے اونچے مینار درمیان گنبد بنے تھے، اس مسجد کو نواب شاہ جہاں بیگم نے ۱۸۸۸؁ ءمیں تعمیر کرایا تھا۔ ۱۹۰۱ء؁ میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ ۱۹۰۱؁ء میں ان کے انتقال کے بعد مسجد کی تکمیل نہ ہو سکی ، اب یہ جواریوں اور شرابیوں اور چوروں کا اڈہ بنی ہوئی تھی، مولانا محمد عمران ندوی ازہری صاحب نے ۱۹۵۰ء؁ میں مدرسہ کھولا ، پھر ۱۹۷۱ء؁ میں تاج المساجد کی تکمیل کا خیال پیدا ہوا اور اس کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ دنیا بھر میں گھوم گھوم کر چندہ اکٹھا کیا، ہندستان کے ہر شہر میں چندہ کے لیے گھومے اور ۱۹۸۱ء؁ میں یہ مسجد پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ یعنی پندرہ سال میں مکمل ہوئی۔
کہتے ہیں کہ نواب شاہ جہاں بیگم نے پہلے اپنا محل بنام تاج محل بنانے کا حکم دیا ، جب وہ مکمل ہو گیا تواس کی اطلاع نواب شاہجہاں کو دی گئی، آپ کا محل مکمل ہوگیا ہے۔ آکر ملاحظہ فرمائیے۔ اپنا محل دیکھنے کے لیے وہ اپنے پرانے محل سے نکلیں، بگھی کی سواری تھی، موڑ پر پہنچیں تو یک بیک ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ میں نے اپنا محل تو بنوا لیا مگر اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ نہیں، بگھی واپس کروالیا اور اس جگہ جہاں اب تاج المساجد ہے اس نام سے مسجد بنانے کا حکم جاری کردیا۔ مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تب اپنا محل دیکھنے گئیں، جس کی لمبائی ایک کلو میٹر ہے ، اس میں سو (۱۰۰) کمرے ہیں۔ ظاہر ہے چوڑائی بھی اسی اعتبار سے ہوگی۔ اس میں تہہ خانہ بھی ہے جس میں بیک وقت پچیس ہزار فوجی رہ سکتے ہیں اس کے داخلی گیٹ پر کمرے بنے ہیں، جس میں نواب صدیق حسن صاحب کا ایک کمرہ تھا جس میں وہ رہتے تھے، نواب شاہ جہاں بیگم کا کمرہ تھا۔ اور اس کا داخلی گیٹ اتنا بڑا ہے کہ اس کے نیچے پوری ٹریفک گزرتی ہے۔ اس کے اوپر دونوں گیٹ پر دو مسجدیں ہیں۔ دونوں مسجدوں میں دو دو دالان ہے، جس میں عورتیں نماز پڑھتی تھیں، محل کے اندر سے مسجد کی دالان میں آنے کے لیے ایک دروازہ لگایا ، کہتے ہیں کہ اسی دروازہ سے نواب شاہ جہاں نماز پڑھنے کے لیے آتی تھیں۔ وہاں ہر مسجد میں امام متعین ہوتے ہیں ، جس کو وظیفہ ملتا ہے۔ عام طور پر دارالعلوم تاج المساجد کا مدرس قریبی مساجد میں مامور ہوتا ہے۔ تاج المساجد جتنی جگہ میں بنی ہے اس قدر جنوبی گیٹ لمبائی چوڑائی میں جگہ چھوٹی ہوئی جس کو چاروں طرف گھیر دیا گیا ہے۔ مشرقی سمت میں کمرے بنا دیئے گئے ہیں اور جنوبی سمت میں سڑک پر کھلنے والی دوکانیں بنوائی گئی ہیں، تاج محل اور تاج المساجد کے درمیان میں ایک تالاب ہے، شام کو نواب صدیق حسن خان اور ان کی بیگم شاہ جہاں بیگم بیٹھا کرتی تھیں، لیکن اصل ارادہ ان کو اس تالاب کو وضو خانہ بنوانے کا تھا۔ گیٹ مین کا جو کمرہ بنایا گیا ہے اس میں اٹیچ لیٹرین اور باتھ روم ہے، مسجد کے مغرب لائبریری ہے، ہیڈ لائبریرین کا اونچا ڈائس کی طرح اور اونچی جگہ بنائی ، جس سے پوری لائبریری پر اس کی نظر رہے، اس سے مشرق میں لمبی میز لگی ہے۔ جس کے دونوں طرف کرسیاں لگی ہیں، جنوب وشمال میں کتابیں ہیں، جو دو منزلہ ہے۔ میز کی مشرقی جانب نائب لائبریرین کے لیے میز کرسی لگی ہے، جس پر بیٹھ کر وہ آنے جانے والوں پر نظر رکھ سکے اور کوئی شخص کتاب یا رسالہ کی چوری نہ کر سکے۔ ہم جس وقت گئے تھے ، لائبریری میں ستر ہزار کتابیں تھیں ، آج بیس سال کا زمانہ گزر چکا ہے۔ کتابوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہوگا، باہری گیٹ دن میں ہر وقت کھلا رہتا ہے تاکہ طلبہ لائبریری آکر خالی گھنٹیوں میں استفادہ کر سکیں۔ اس طرح مشرقی گیٹ پر اوپر دوسری منزل کے طور پر دو کمرے بنائے ہیں، تاکہ باہر سے تصنیف وتالیف وتحقیق کا کام کرنے والے ٹھہر سکیں، فیملی کے ساتھ بھی ٹھہر سکتے ہیں اور اپنا کام شب وروز کسی بھی وقت کر سکتے ہیں، بس لائبریری سے ان کو کتابیں لانی رہیں گی ان کی وجہ سے نہ لائبریری والوں کو اضطراب ہو گا اور کمرے میں ٹھہرنے والوں کو بھی کوئی ڈسٹرب نہ ہو گا۔ لائبریری کی نشست سے قریب جنوب اور شمال دو حمام بنے ہیں، تاکہ وہ اپنی ضرورت پوری کرسکے اور کچھ دوسرے مخصوص لوگ بھی استفادہ کر سکیں۔ یہ سارے انتظام مجھے دیکھ کر بڑا اچھا لگا کہ انتظام میں بڑی دور بینی سے کام لیا گیا ۔ پھر دار العلوم تاج المساجد میں ہر آفس کے اندر اٹیچ لیٹرین اور باتھ روم کے انتظام تھے تاکہ نماز کے وقت پوری آسانی سے تیاری کرکے مسجد میں آسکیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کا نام تاج المساجد رکھنا بالکل بجا ہے۔
مسجد میں جمعہ بھی پڑھنے کا موقع ملا ، حبیب ریحان ازہری امام وخطیب تھے، اہل حدیثوں کی طرح خطبہ دیا۔ جس میں زبان عربی تھی، خطبہ سے پہلے یا بعد میں کوئی تقریر نہیں تھی۔ مصلیان سے مسجد بھری تھی، عمر دراز لوگوں میں نوابی شان باقی تھی، شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ویسے عوام میں اب بھی کچھ نہ کچھ اثر ہے ، کوئی بات پوچھو تو بڑے نرم لہجہ میں جواب دیں گے، راستہ پوچھیں تو تفصیل سے جواب دیں گے۔ کرایہ دوسری جگہوں سے کم ہے۔ ہمارے رہبر دار العلوم تاج المساجد کے ایک استاذ تھے، وہ بہت سی جگہوں پر ہم کو لے کر گئے۔ بھوپال کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں چار بیگمات نے حکومت کی اور سب کے سب ذی علم وفہم پاکباز وپارسا تھیں۔ اور سب نے اپنی طرف سے مسجد بنوائی، انہیں کے اثر سے اہل خیر نے بھی مساجد بنوانے میں سبقت کی۔ بھوپال کو مسجدوں کا شہر کہا جائے تو اچھا ہے۔ تین سو سے زیادہ مسجدیں یہاں ہیں۔ اس کو جھیلوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ جب کہ یہاں تالا ب صرف دو ہیں۔ چھوٹا تالاب کی لمبائی میں شہر کے ایک حصہ کو شرقاً وغرباً گھیرتا ہے اور دوسر اتالاب جس کی لمبائی ڈیڑھ سو (۱۵۰)کلو میٹر ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پرانے راجائوں میں سے کوئی راجہ بیمار ہوا ، وہ کسی طرح شفایاب نہ ہوتا تھا تو اس کو کسی ذی عقل حکیم اور وید نے کہا کہ تم پانچ سو پچیس(۵۲۵) ندیوں کا پانی اس پاڑی میں لاکر گرا دو تو تمہیں بیماری سے شفا مل جائے گی، اس نے حکیم کی بات پر عمل کیا، اس میں بڑی مشکلیں پیش آئی مگر پھر بھی وہ پیچھے نہ ہٹا، حکیم کا قول پورا کیا اور اس کو بیماری سے شفا مل گئی، یہی بھوپال کا بڑا تالاب ہے جو ڈیڑھ سو کیلو میٹر لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔ کتنے انسان اور جانور چرند پرند اس سے اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور کتنی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔
دوسرے روز عصر کے بعد ڈاکٹر رضیہ سلطان سے ملاقات کے لیے نکلے ، معلوم ہوا کہ ان کا آفس تاج المساجد سے قریب ہے، ان کے آفس پہنچے ڈاکٹر رضیہ سلطان اور ان کے شوہر حامد صاحب انجینئر سے ملاقات ہوئی، وہ دبئی میں سروس کرتے تھے۔ ابھی تقریبا دس روز پہلے سامان منتقل کرکے بھوپال آئے ہیں۔ اور یہیں چھوٹا آفس کھول لیا ہے، کتابیں سب کارٹون میں بندھی ہوئی رکھی ہیں۔ حامد صاحب نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ نواب صاحب کی تصنیفات رضیہ کے پاس جتنی ہیں اتنی کتابیں کسی کے پاس اکٹھا نہ مل سکیں گی۔ آپ لوگ ہمارے گھر پر ضرور آئیں ، بڑے تالاب سے متصل ہمارا گھر ہے، وہاں کا منظر دیکھئے اور اپنا کام بھی کر لیجئے گا۔
حامد صاحب نے کہا کہ میں ان کتابوں کی حفاظت کرتا تھا مگر اب میرے لیے اس کی حفاظت کا کام مشکل ہے، میری عمر اب بہتر(۷۲) سال ہو چکی ہے اور دن بدن قوت گھٹتی جارہی ہے، معلوم نہیں اس وقت زندہ ہیں یا نہیں ، اگر اس وقت زندہ ہوتے تو ان کی عمر ترانوے(۹۳) سال ہوتی، اتنی لمبی عمر شاید باید کسی کو ملتی ہوگی، یہ سن دوہزار میں ہوا تھا۔ اب دو ہزار اکیس ۲۰۲۱ء؁ چل رہا ہے۔ بہر حال وہ زندہ بخیر ہوں گے۔ تو اللہ تعالیٰ انہیں صحت یاب رکھے، مزید کارِخیر کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اگر وہ مرحوم ہوچکے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں کو معاف کرکے اعلیٰ علیین میں جگہ دے، یہاں دعا دونوں کے لیے۔ انہوں نے کتابوں کو مناسب جگہ جہاں حفاظت ہو سکے دینے کی بات کہی ہے، کسی جگہ انہوں نے دے دیا ہے، مگر متعینہ طور پر مجھے معلوم نہیں کہ کہاں دیا۔ البتہ میں نے جامعہ سلفیہ کے لیے کہا تھا۔ وہ وہاں کے بدذوق علم سے کوتاہ کتابوں سے کیا شغف رکھیں گے اور اس کی حفاظت کیا کریں گے۔ عبد اللہ لائبریری کلکتہ کے لوگوں نے ہم لوگوں سے کہا تھا کہ ہم اپنی لائبریری جامعہ سلفیہ میں دینا چاہتے ہیں۔ مگر یہ سنتے ہی دو آدمیوں میں جھگڑا ہو گیا ، پہلا کہتا کہ میں لینے کے لیے جائوں گااور دوسرا کہتا میں جائوں گا، یہی کہتے کہتے معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور شاید اب کسی کو یاد بھی ہوگا یا نہ ہوگا۔ اسی طرح کا واقعہ حیدر آباد کے ایک کتاب خانہ کا بھی ہوا۔ اللہ تعالیٰ سب کی لغزشوں کو معاف کرے، علم اور عمل علم کو کتنا نقصان کرچکے ہیں۔ یہ بدقماش لوگ اللہ جانے اور وہی سمجھے۔ یہ اپنی ناموری کے چکر میں جامعہ سلفیہ کو کتنا نقصان پہنچا چکے ہیں؟ اور آگے کتنا نقصان پہنچائیں گے اللہ تعالیٰ ان بد نظروں کے شر سے جامعہ سلفیہ کو محفوظ رکھے۔
بہرحال! حامد صاحب بھوپالی نے یہ باتیں ہم سے کہیں اور تفسیر ترجمان القرآن النواب صدیق حسن خان کے بارے میں کہا کہ اس کے چھپوانے کی بات میں نے کر لی ہے، انہوں نے اس کے چھاپنے کا پکا وعدہ کر لیا ہے۔ ماشاء اللہ ترجمان القرآن کی طباعت ہو چکی ہے، کہیں سے بھی ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ بہت سی کتابیں ان کی چھپ کر آگئی ہیں ، ہم کوتاہ دست اس کو حاصل کر سکیںیا نہ کر سکیں۔اللھم أعف عنّا، وربِّ زدنی علماً۔
خیر ہم لوگوں نے ان کی دعوت قبول کرلی۔ مگر دعوت میں ان کے گھر نہ جا سکے۔ مگر ۱۱؍۹ کے حادثہ کی وجہ سے حالات دگر گوں ہو رہے تھے۔ کچھ بھروسہ نہ تھا کہ کب کیا ہو جائے۔ بہر حال وہیں آفس میں ڈاکٹر رضیہ کو دعوت نامہ دیا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کی کتاب جو انہوں نے نواب صاحب پر لکھی تھی ایک عدد ہدیہ میں دی۔ انہوں نے دعوت نامہ قبول کرلیا، آنے کے لیے اصرار کیا کہ میں ضرور آئوں گی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہمارے یہاں عورت کو ڈائس پر بٹھانے اور مقالہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
وہ اپنی اصرار پر جمی رہیں، تو میں نے کہا آپ کے لیے میرا فلیٹ حاضر ہے، جب چاہے آئیں اور جب تک چاہیں رہیں، وہاں پر پروگرام سے مقالہ نگار اور مقرر کی آواز پہونچے گی آپ کا مقالہ کوئی آدمی پیش کردے گا اور جو بات کہنی ہوگی وہ تحریری شکل میں آپ پیش کر دیجئے گا اس طرح آپ کی شرکت بھی ہو جائے گی اور آپ کا مقالہ بھی پیش ہو جائے گا۔ بہر حال ماحول ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے سیمینار بھی ملتوی کرنا پڑا ، ہم لوگ تین روز بمشکل گھومے، اقبال لائبریری ، گاندھی لائبریری، نیشنل لائبریری دیکھی ، موتی مسجد دیکھی جسے نواب قدسیہ جہاں بیگم نے بنوایا تھا، بڑی خوبصورت بنوایا گیا۔ سنا ہے اس کے تیار ہونے کے بعد نواب قدسیہ جہاں بیگم کو اس کے مکمل ہونے کی اطلاع دی گئی وہ دیکھنے کے لیے آئیں مگر نظر اٹھا کے نہ دیکھا اس خوف سے کہ کہیں میرے دل میں غرور نہ پیدا ہو جائے۔ اس کو جامع مسجد کہا جاتا ہے۔ پھر نواب سکندر جہاں بیگم کی مسجد دیکھی گئی۔ وہ لمبی چوڑی ہے، یہی وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے جامع مسجد دہلی کا تالا کھلوایا تھا، تقریبا آٹھ سال تک دہلی کی جامع مسجد میں انگریزوں نے تالا ڈالا تھا۔ اور یہ شاہجہانی مسجد آٹھ سال مصلیان کے لیے بند رہی۔ انہوں نے نواب صدیق خان کو اپنے دربار میں ملازم رکھا تھا۔ اسی زمانہ میں نواب صاحب کو انہوں نے حج کے لیے بھیجا اور کئی ٹرنک کپڑے غرباء میں تقسیم کرنے کے لیے دیئے، اس زمانہ میں سعودیہ عربیہ میںبڑی غربت تھی، دنیا بھر سے اہل خیر کی امداد آتی تھی اور اسی امداد کے ذریعہ ان کی حالت درست رہتی تھی۔
بھوپال ریاست کا یہ قاعدہ تھا کہ راجہ کا ولی عہد اس کی اولاد میں سے ہوتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو یہ حق ہوتا تھا کہ ولی عہد کی بلوغت اور سن رشد کو پہونچنے تک ریاست پر حکومت کر سکتی تھی، بلوغت تک اس کا ولی عہد اصل حاکم ہوگا، ہاں اگر ولی عہد اجازت دے تو اصل حاکم بن کر رہے گی۔ نواب قدسیہ جہاں بیگم کے شوہر کا انتقال ہوا تو نواب سکندر جہاں بیگم ولی عہد تھیں، انہوں نے باپ کے مرنے کے بعد ماں(قدسیہ جہاں بیگم کا زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور حکومت وہی کرنے لگیں۔ مگر نواب شاہ جہاں بیگم کے باپ نے جب انتقال کیا تو انہوں نے زندگی بھر زمان اقتدار ماں ہی کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ ان کی موت کے بعد اقتدار ہاتھ میں آیا۔ پھر جب ان کے شوہر کا انتقال ہوا تو ان کی صاحب زادی سلطان جہاں نے اپنے ہاتھ میں اقتدار نہیں لیا، زندگی بھر نواب شاہ جہاں بیگم حکومت کرتی رہیں، جب انہوں نے نواب صدیق خان صاحب سے شادی کرلی تو خاندان میں بڑا اختلاف ہوا۔ نواب قدسیہ جہاں بھی اس شادی سے راضی نہ تھیں اور نواب سلطان جہاں بیگم ولی عہد ہونے سے راضی نہ تھیں مگر مقدر نے جتنی زندگی لکھ دی اتنی زندگی گزار کر دوسرے جہاں کی راہ لی۔ اسی ناچاقی کی بنا پر نواب صدیق خان صاحب کو دفن کرکے کسی دشمن نے قبر اکھیڑ دی ، کفن سمیت لاش دکھائی پڑنے لگی ، کوتوال نواب شاہ جہاں کو اس کی اطلاع دی تو ان کی قبر کو چاروں طرف سے لوہے کی جال سیمنٹ سے جام کرا دیا ، البتہ اوپر تعویذ کا حصہ باقی ہے یہ پکی چنائی قد آدم کے برابر ہے۔ ہم لوگ نواب صاحب کی قبر دیکھنے کے لیے گئے یہ دیکھا کہ ان کے اس باغ کو تقسیم کرکے کئی راستوں میں تقسیم کردیا ہے۔ البتہ قبر کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی۔
مخالفین نے بہت سے الزامات نواب صاحب پر لگا کر انگریزوں سے چنائی کی۔ انگریزوں نے نواب صاحب کا خطاب والقاب چھین لیے اپنے گھر کے ایک کمرے میں بہت دنوں تک نظر بند رہے دوبارہ انگریزوں کا ذمہ دار افسر نواب شاہ جہاں کے پاس آیا اور نواب سے علیحدگی کے لیے کہا۔ نواب شاہجہاں بیگم ایسی مثالی ہندستانی خواتین کے لیے اس طرح کی وفاداری شوہر کے لیے ایک نمونہ ہونی چاہئے۔ انہوں نے پہلی بار یہ جواب دیا کہ تمہاری ریاست میرے جوتے کی نوک پر ہے تم اپنی ریاست لے لو مجھے میرا شوہر چاہئے، دوسری بار کہا تم اپنی ریاست لے لو میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک کٹیا میں رہ سکتی ہوں اور گھاس کاٹ کر اور فروخت کرکے اپنا گزر بسر کر سکتی ہوں، بس مجھے میرا شوہر چاہئے۔
نواب سلطان جہاں ہمیشہ ناراض رہا کرتیں، مزاج پرسی کو کبھی نہ آیا کرتیں، البتہ ان کی لڑکی بلقیس جہاں بیگم کو نواب شاہجہاں بیگم اپنے پاس رکھا کرتی اور وہ بڑی خوش دلی سے نانی کے ساتھ رہتی تھیں، ایک مرتبہ نواب شاہ جہاں بیگم کی علالت کے زمانہ میں احوال پرسی کے لیے آئیں، نواب شاہ جہاں چادر اوڑھے ہوئی اور کچھ بیہوشی کا شایدغلبہ تھا۔ نواب سلطان جہاں بیگم پیتانے کی طرف کھڑی ہوئیں اور سر پر ہاتھ رکھا اور بھپھک کر رو پڑیں شاید ماں کی محبت کچھ اٹھاتیں۔ اتنے میں نواب شاہ جہاں بیگم ہوش میں آگئیں انہوں نے آنکھ کھولی اور دیکھا کہ سرہانے سلطان جہاں کھڑی ہیں، دیکھ کر کہا کہ میری زندگی میں یہاں نہ آنا میرے مرنے کے بعد آنا، واپس چلی جائو چنانچہ واپس لوٹ گئیں اور ساتھ بلقیس جہاں بیگم کو ساتھ لیتے گئیں، اور کہا کہ جلد ہی واپس کردوں گی، مگر ان کو جانے کے بعد ایسا بخار لگا کہ کسی علاج سے اچھا نہ ہوا ، انگریز کے مخصوص معالج آکر واپس لوٹ گئے، کسی کے علاج سے ان کی بیماری میں افاقہ نہ ہوا۔ بالآخر نانی سے دور ہی رہ کر ان کا اسی بیماری میں انتقال ہو گیا۔ ادھر نانی نے ان کے انتقال کی خبر سنی تو بڑا صدمہ ہوا جس سے ان کی بیماری میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آخر اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا۔
نواب صدیق حسن خان کے القاب وخطابات چھین لیے گئے۔ اور وہ اپنے گھر میں نظربند کردئے گئے۔ تو نواب شاہ جہاں بیگم نے ایک گاڑی (ٹرین) دو بوگی بنوائی تھی اسی کے لیے لائن بچھا ئی گئی لوگ اسے دیکھتے، نواب شاہ جہاں بیگم روزانہ اپنی سہیلیوں اور خادمائوں کے ساتھ بعد نماز عصر نواب صاحب سے ملنے جاتیں اور اس وقت تک جب تک نواب صاحب تاج محل میں رہنے کی رضامندی نہ حاصل کرلی تب تک ٹرین سے آتی جاتی تھیں، اس ٹرین کو وہاں کھڑکھڑا اور اس سڑک کو کھڑکھڑھے والی سڑک کہتے ہیں۔
نواب صاحب انگریزی تعلیم کے مخالف تھے، اسی لیے نواب شاہ جہاں بیگم بھی اس کے مخالف تھیں، ایک بار سرسید احمد صاحب بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نواب شاہ جہاں بیگم سے چندہ مانگنے کے لیے گئے ، نواب صدیق خان کا انتقال ہو چکا تھا۔ نواب شاہ جہاں بیگم پردہ کی اوٹ سے مزاج پرسی کی اور تشریف آوری کا سبب معلوم کیا تو انہوں نے یونیورسٹی کے چندہ کی بات کہی، نواب شاہجہاں بیگم نے جواب دیا، مولانا میں کالج کے لیے ایک پیسہ نہیں دے سکتی ہاں یہ دس ہزار روپیہ حاضر ہیں اس کو مسجد بنوانے میں خرچ کیجئے گا۔ اس زمانہ میں اس رقم کا کتنا اونچا معیار رہا ہوگا تصور کیجئے۔
یہ معلومات نواب صاحب کے پڑپوتے سید مجیب سے ملی، نواب صاحب کے بارے میں ان کے دماغ میں ذخیرہ بھرا ہے، بیچارے دل کے مریض تھے ، پھر بھی ہم لوگوں سے پانچ گھنٹے مسلسل گفتگو کی، وہ شنکر دیال شرما کے زمانے میں ان کے مخصوص سکریٹریوں میں شامل تھے، یہ کل پانچ بھائی تھے۔ کچھ حصہ داروں نے اپنا حصہ اونے پونے میں فروخت کر دیا۔ نواب صاحب کی مسجد جو ان کے گھر کے پاس ہے ، میںنماز پڑھنے کا موقع ملا ، ان کے ایک پوتے سے ملاقات ہوئی جو انجینئر ہیں اور تاج المساجد کی باڈی میں شامل ہیں، نواب کی اولاد زیادہ تر پاکستان، لندن اور امریکہ میں منتقل ہو چکی ہے۔
ہم لوگ پورا بھوپال نہ گھوم سکے۔ ترجمہ مسجد بھی گئے، جس میں نواب صدیق حسن خان صاحب فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کو سناتے تھے اور پورے قرآن کا دورہ مکمل ہو چکا تھا۔ حالات اس قدر مخدوش ہوئے کہ خوف کی وجہ سے ٹکٹ کینسل کراکے جلدی کا ٹکٹ نکالا گیا۔ اگر تفصیل سے اس کے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا تو ایک ماہ بھی ناکافی ہوتا، خیر ہم جلدی کا ٹکٹ نکلوا کے بعافیت بنارس پہنچے اور سارے متعلقین کو خیریت سے پایا۔
الحمد اللہ علی کل ذالک
نواب صاحب کو اللہ نے ہمہ جہت صلاحیت دی تھی، جس کی وجہ سے آپ نے پورے عالم اسلام کی خدمت کی۔ حدیث تفسیر کی کتابیں جو علماء دیکھنے کو ترستے تھے کئی جلدوں پر مشتمل انہیں اپنی طرف سے طبع کرائے ، پورے عالم اسلام میں تقسیم کرایا۔ بڑے بڑے علماء کرام کو بھوپال علمی خدمات انجام دینے کے لیے بلایا اور معقول تنخواہ دی۔ جو علماء بھوپال نہیں منتقل ہو سکتے تھے انہیں معقول وظیفہ دے کر ان کی مناسب جگہ سے خدمت حاصل کیں، قلم اتنا سیال ذہن اور دماغ اتنا روشن عطا کیا گیا تھا کہ چند ساعت میں رسالہ ہفتہ میں بڑی ہوئی کتابیں اور سال بھر میں دس بارہ جلدوں پر مشتمل تصنیفات تیار ہو جاتیں، علمی خدمات کے صلہ میں کئی جگہوں سے ان کو تمغے ملے۔ اور جو اپنی دینی اصلاحات کیں وہ ان کی مجددیت پر دلیل ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے صرف انسٹھ (۵۹) سالہ عمر میں تین سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کر ڈالی۔اور کئی کئی پر مسلسل کام میں لگے تھے۔ یہ سب نعمتیں دیکھ کر نواب شاہ جہاں بیگم سراپا شکر تھیں، اور دین وشریعت کی اتنی پابند کہ کلکتہ میں وائسرائے سے ملاقات کرکے واپس قیام گاہ پر آئیںتو داستانہ ہاتھ سے نکال کر پھینک دیا کہ اسے فوراً دھل دو اس پر غیر مرد کا ہاتھ لگا ہوا ہے۔ خود اتنی بڑی عالمہ وفاضلہ تھیں کہ اردو فارسی میں شاعری کرتی تھیں، ان کا وجود موجود ہے، اور عربی زبان بھی سمجھ اور پڑھ سکتی تھیں۔بڑی نیک ، پارسا زود فہم بڑی خوبیوں کی حامل تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی بشری لغزشوں کو درگزر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔
نواب سلطان جہاں بیگم نے اپنی ماں کے بعد زمامِ ریاست ہاتھ میں لیا ان کے علم ومعرفت کا کیا کہنا۔ اپنی خدمات کے ذریعہ یہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی چانسلر تھیں۔ اسی سے ان کے علم ومعرفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ۱۹۴۷ء؁ کے بعد ریاستیں ختم کر دی گئیں، مگر وہاں کی ریاست باقی رہی، بہتر (۷۲) سال کی ہوئیں تو ریاست اپنے لڑکے کے سپرد کردی اور خود کو علیحدہ کیا، ان کے لڑکے کو بھی تین بیٹیاں تھیں، ولی عہد کے چکر میں ریاست کا نظم گیا گزرا ہو گیا۔ ریاست بکھر گئی۔ واللہ المستعان

Related posts

مدرسہ انوارالعلوم

Paigam Madre Watan

ایک سازش

Paigam Madre Watan

سعودیہ کا دوسرا سفر

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar