- تصنیف: مولانا عزیزالرحمن سلفی
- سابق استاد جامعہ سلفیہ بنارس
- ماخوذ: رشحات قلم
ضلع بستی موجودہ ضلع سدھارتھ نگر میں مشہورقصبہ ہلور اور ڈومریاگنج واقع ہے۔ ڈومریاگنج سے جو روڈ بانسی قصبہ کو جاتاہے اس پر ڈومریاگنج سے آٹھ کلومیٹر کی دوری پر مین روڈ سے جنوبی جانب تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک بڑاگائوں موضع ٹکریا واقع ہے۔ یہ اطراف واکناف کا بڑا گائوں مانا جاتاہے۔ تقریباً تین سوگھرآبادہیں۔ مجموعی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً تین ہزار پر مشتمل ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ دہلی جاکرکمائی کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ بڑی ترقی پر ہیں۔ انہوںنے دہلی میں اپنا گھر بھی بنالیاہے۔ گاہے بگاہے اپنے وطن آتے رہتے ہیں یا پھر تقریبات میں تو ضرورہی شریک ہوتے ہیں۔
اس گائوں کے جنوب میں مشہور بھارت بھاری ہے جہاں بہت بڑا ساگر ہے، یہ ہندوئوں کا تیرتھ استھان ہے، جو بہت قدیم ہے ، کارتک پورنیا کے موقع پر یہاں میلا لگتا ہے جو پہلے ایک ڈیڑھ ماہ تک رہتا تھا لیکن اب بھی تقریبا ایک ہفتہ تک لگا رہتا ہے، اس گائوں کی جو موجودہ آبادی ہے اس کے مغربی سمت میں ایک اونچی لمبی چوڑی زمین ہے جس کے بارے میں آثار قدیمہ کے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ ایک راجہ کی راجدھانی تھی جس پر کسی دوسرے حکمراں نے حملہ کیا اور پوری آبادی کو ویران کردیا۔ بچے کھچے لوگ اس سے ہٹ کر آبادی اور ساگر کے درمیان آباد ہوئے۔
آثار قدیمہ کے لوگ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ساگر کے مغربی اونچائی(بھٹیہ ) پر راجہ کا محل تھا اس میں تہہ خانہ بھی موجود تھا۔ اس کے کچھ کمرے خزانہ کے لیے مخصوص تھے۔ کئی سال پیشتر اس کی کھدائی کا پلان گورنمنٹ کی طرف سے بنا، ان کے لیے کیمپ وغیرہ لگے مگر سادھوئوں کی طرف سے رکاوٹ ہو گئی اس لیے آثار قدیمہ والوں کو واپس لوٹنا پڑا۔
واضح ہو کہ اس ساگر کے شمال میں سادھوؤں نے کئی مندر اور اپنی رہائش گاہیں بنا لی ہے، کسی کو ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اس لیے سب خاموش رہتے ہیں، یہ ساگر تقریباً ۴۰؍۵۰ بگہے میں ہوگا، ہمارے دادا کی جوانی کے زمانے میں کبھی یہ ساگر سوکھ گیا تو پورے جوار کے لوگوں نے تین چار فٹ گہری کھدائی کی تھی۔ پھر سب کی ہمت ہار گئی ،نمونہ کے لیے میرے بچپن میں دادا کی وہاں سے لائی ہوئی اینٹیں موجود تھیں، مربع ڈیڑھ فٹ لمبی چوڑی اینٹیں تھیں، بعض علماء نے بتایا کہ اس ساگر کی زمین سطح پلاسٹر شدہ ہے اس وقت اس ساگر میں بڑی بڑی مچھلی ہیں جو آدمی کو نگل سکتی ہیں ، بعض مرتبہ بھینس گرمی کے زمانہ میں چلی گئی تو ایک مچھلی نے اس کا منہ اپنے جبڑے میں بھر لیا اور اور بھینس کا کام تمام کرڈالا۔
یہ زمین چھتوں کے برابر اونچی ہے، کسانوں نے اس اونچی زمین کو اپنے استعمال لائق بنانا چاہا تو عمارتیں ملیں ، کسانوں کی کھدائی کے وقت کئی عدد کنواں ملا۔ سونے اور چاندی کی مورتیاں اور سونے چاندی کے سکے ملے۔ مگر جب حکومت کو پتہ چلتا تو ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں لے لیتی اور اپنی تحویل میں لے لیتی۔
یہاں ٹکریا میں قدیم زمانہ سے مصلحین اپنے اپنے وقت میں پہنچا کرتے تھے اور یہاں کے باشندوں کو ساتھ لے کر اطراف وجوانب میں تبلیغ کے لیے جایا کرتے تھے۔ مولانا محمدجعفر رفیق مجاہدین، میرمنشی کاروان جہاد کا سرحد سے واپسی کے بعد یہ گائوں تبلیغی ہیڈکوارٹر تھا۔ ان کے تبلیغی ساتھی میرے نانا کے والد محمدفاضل صاحب تھے۔ جو اچھے خاصے ذی علم تھے ۔ ان کے تبلیغی جلسوں میں ان کے ہمراہ رہتے اور مثنوی مولاناروم میں سے کچھ سنایاکرتے تھے۔ اچھے فارسی داں تھے، طلبہ کو راہ چلتے پڑھایا کرتے تھے۔ مولانا اللہ بخش بسکوہری مولانا محمد جعفر صاحب پنجابی مولانا شمس فیض آبادی اپنے اپنے دور میں آتے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ اطراف میں تبلیغی دورے کرتے۔ مصلح ومجددعلاقہ مولانا ممتاز علی صاحب کا (۱)ننہال اسی گائوں میں تھا(۲) یہی گائوں ان کی پیدائش گاہ ہونے کا شرف رکھتاہے(۳)ان کی شادی اسی گائوں میں ہوئی(۴) ان کی تدریس وتبلیغ اور اصلاح کا آغاز اسی گائوں سے ہوا(۵)اب ان کے ایک پوتے کی شادی اسی گائوں میں ہوئی، حاجی حشمت اللہ ، حاجی حشم اللہ علی رضا نامدار وغیرہ ان کے تبلیغی ساتھی اسی گائوں سے ملے۔ چالیس گائوں میں تعزیہ کے چبوتروں کے انہدام میں ان کے ساتھیوں کا ہاتھ ہے۔ موضع کولہوی بزرگ کا چبوترہ منہدم کرنے میں ہمارے ناناحاجی حشمت اللہ (والد مولانا شکراللہ فیضی) اور ہمارے دادا ’’جان محمد‘‘ کی بہادری کا ہاتھ تھا۔ اس گائوں میں بڑے بڑے علماء کا ورود ہوا۔ اور یہاں علم ومعرفت کی چند مشہورہستیاں پیداہوئیں۔ مثلا: مولانا عبدالرزاق صاحب، مولانا عبدالغفور صاحب، مولانا عبدالقدوس صاحب(مجاہدملت) مولانا شکراللہ فیضی، مولانا محمدخلیل رحمانی رحمہم اللہ رحمۃ واسعۃ، اور اس وقت تو ماشاء اللہ علماء کرام کی تعداد نصف صد سے کم نہ ہوگی۔
اسی گائوں ٹکریا، پوسٹ کسمہی، تھانہ وتحصیل ڈومریاگنج، ضلع سدھارتھ نگر قدیم ضلع (بستی) میں میری پیدائش ہوئی۔
سلسلہ نسب درج ذیل ہے:
- عزیزالرحمٰن سلفی بن نصیب اللہ بن جان محمد بن محمد شریف بن فقیر بخش بن ’’للئی‘‘ منشاد، اوپر کے دونوں بزرگان کا تعلق اترولہ راجہ کے خاندان سے تھا۔ ان کے اجداد سورج بنس ٹھاکر تھے۔ کسی بزرگ پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوئی۔ انہوںنے کفروشرک سے توبہ کرکے اسلام قبول کرلیا۔ اوپر کے دواجداد ’’للئی ومنشاد‘‘ تک یہ سلسلہ پہنچتاہے۔ ممکن ہے کہ درمیان میں کچھ نام چھوٹ رہے ہوں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ان کی نسل میں برکت دی اور اب یہ خاندان پچپن ساٹھ گھروں پر مشتمل ہے ۔ پہلے اس خاندان کی اطراف کے دس پندرہ گائوں میں زمین داریاں تھیں۔ اب وہ سب ختم ہوچکی ہیں۔ پھر بھی ماشاء اللہ ہر گھر معاشرہ میں متوسط درجہ رکھتاہے۔میرا ننہال بھی اسی گائوں میں واقع ہے۔ میری والدہ مولانا شکراللہ فیضی بن حاجی حشمت اللہ کی بہن تھیں۔ ان کا نام رابعہ تھا۔ان شاء اللہ آگے کے صفحات میں دونوں نسب نامہ پیش کروں گا۔
کاغذات میں میرا سال پیدائش ۸؍مارچ ۱۹۴۹ء لکھا ہواہے۔ یہ کوئی قطعی او ریقینی تاریخ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مدرسہ دارالحدیث (مئوناتھ بھنجن) میں میرا داخلہ چھٹی جماعت (عربی) میں ہوا، وہاں کے اساتذہ نے میری تعلیمی جماعت دیکھ کر تخمیناً یہ تاریخ لکھ دی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جو لوگ مجھ سے چھ سات سال بڑے تھے اور اسی جماعت میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ان کا سن پیدائش بھی یہی لکھا گیاہے۔ اس بات سے اسی امکان کو تقویت ملتی ہے کہ اساتذہ نے میرا سال درس دیکھ کر یہ ماہ وسال لکھ دیے۔ ورنہ دیہات میں نہ تو گھروں میں تاریخ پیدائش لکھنے او رمحفوظ رکھنے کا رواج تھا اور نہ مدارس میں یہ بات معروف تھی۔
میرے والد جناب نصیب اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے بیان کے مطابق میرا سال پیدائش ۱۹۵۲ء ہے۔ میری والدہ (رابعہ) کا انتقال ۲۶ جنوری ۱۹۵۶ء میں ہواتھا۔ والد صاحب کے بیان کے مطابق والدہ کے انتقال کے وقت میری عمر ۴؍سال ۲؍ماہ کچھ دن تھی، میرے والد صاحب نے بتایا کہ گود میں اٹھا کر وہ مجھے قبرستان لے گئے تھے، ویسے مجھے والدہ مرحومہ کا چہرہ بھی یاد نہیں ہے۔ میر ی چھوٹی پھوپھی کی شادی ۱۹۵۶ء میں ہوئی تھی۔ ایک بار میرے پھوپھا صاحب کہنے لگے کہ میری شادی کے وقت آپ کی عمر چار سال سے زیادہ نہیں تھی۔ میری موجودہ ممانی جو میرے ماموں کی پانچویں بیوی ہیں(پہلی چار بیویوں میں سے دوکی وفات ہوئی تھی اور دو کو ان کی کج خلقی کی وجہ سے ماموں نے طلاق دے دیاتھا) اور یہ پانچویں ممانی ابھی ماشاء اللہ حیات ہیں۔ (جب کہ ماموں کا چند سال پیشتر انتقال ہوگیا ہے) مجھ سے بڑی محبت رکھتی ہیں۔ ان کے بقول ان کی شادی کے وقت میری عمر دوڈھائی سال تھی۔ شاید ۱۹۵۴ء میں ان کی شادی ہوئی۔ ان کی ماموں کے گھر آمد کے وقت ہاتھ میں لالٹین اٹھائے میں یہاں وہاں گھوما کرتا تھا۔ کسی نے میری ماں سے کہا کہ یہ لالٹین کیوں ادھر ادھر کیا کرتا ہے تو انہوںنے کہا کہ دلہن کو دیکھنا چاہتاہے۔ (یہ باتیں مجھے یاد نہیں ہیں) ان سارے ذرائع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کاغذات میں لکھی گئی میری عمر زیادہ لکھ دی گئی ہے۔ بہرحال اب تو اعتبار کاغذ ہی کاہوگا۔اور اللہ تعالیٰ نے جتنی زندگی دنیا میں جینے کی مقدرکردی ہے اتنی ہی ملے گی۔ نہ کم، نہ بیش، وہی زندگی اور مو ت کا مالک ہے۔
میری تعلیم وتربیت میں میرے پورے خاندان کا ہاتھ ہے۔ اس لیے کہ میں گھر میں نرینہ اولاد کی شکل میں تنہا تھا۔ دونوں چچا (جناب حفیظ اللہ صاحب رحمہ اللہ اور جناب رفیع اللہ صاحب حفظہ اللہ ) میرے ساتھ ہمیشہ محبت کا سلوک کرتے اور ہر چھوٹی بڑی ضرورت اورضد پوری کرنے کی کوشش کرتے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان لو گوں کو بھی ذکورواناث اولاد سے نوازا۔ میرے والد صاحب نے تو میری تعلیم وتربیت کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ دوسری شادی ایک بوڑھی بیوہ عورت سے اس وقت کی جب میری شادی اور رخصتی ہو چکی تھی۔ اور میری بیوی (میمونہ شہناز) میرے گھر رہنے لگی تھیں۔ یہ شادی محض ہم دونوں کو آرام پہنچانے کی غرض سے کی تھی، قدرت کا لکھا کچھ ایسا تھا کہ والد صاحب کا انتقال بھی ۲۶؍ جنوری ۲۰۱۵ء کو ہوا۔ اور ۲۷؍ کو تجہیز وتکفین ہوئی۔ میں بنارس جامعہ سلفیہ میں تھا، تقریبا تین ساڑھے تین بجے انتقال کی خبر بذریعہ ٹیلی فون ملی، چار بجے ٹرین تھی، میں عجلت میں تیار ہوکر اسٹیشن پہونچا۔ الحمد للہ ٹرین مل گئی اور کچھ ہمراہی بھی مل گئے، منجھلے چچا حفیظ اللہ مرحوم رحمہ اللہ تعالیٰ جو والد صاحب سے چھوٹے تھے، ان کا انتقال والد صاحب سے تقریبا ۳؍ ماہ پیشتر ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کی عنایتوں کا اچھا بدلا دے۔ (رب أرحمہما کما ربّیانی صغیرا)
دادا جان نے بھی میرے ساتھ پیارومحبت کا برتائو کیا۔ ۱۹۶۷ء میں ان کا انتقال ہوا۔ دادی جان نے میرے ساتھ ماں کا سلوک کیا اور کبھی مجھے ممتا کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ ۱۹۸۶ء تک زندہ رہیں۔ میری چار بچیوں اور تین بچوں کو دیکھ کر انہیں گود میں لوریاں دے کر اللہ کو پیاری ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کو دنیا وآخرت میں جزائے خیر سے نوازے، اور وفات یافتگان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین! تقبل یا رب العالمین
میں اگرچہ اپنے والدین کی تنہا یادگارہوں نہ کوئی بہن نہ کوئی بھائی۔ پیدا ضرور ہوئے جیسا کہ بزرگوں کی زبانی معلوم ہوا۔ مگر وہ سب بچپن ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مثلاً: کلیم اللہ (یہ مجھ سے بڑے تھے) حمیداللہ، اطیع اللہ، سمیع اللہ، ایک بہن۔ اب مجھے اللہ تعالیٰ نے پانچ بچیوں اور چار بچوں سے نوازا۔ سب پانچ بچیاں اپنے گھروالی بن کر صاحب اولاد ہیں:
(۱) عزیزہ شہناز (مولوی ابوالکلام سلفی) ان کے دولڑکے ہیں احمد او رعامر۔
(۲) خورشیدہ شہناز(مولوی عبدالعلیم فلاحی) ان کے پانچ بچے ہیں: سعیدہ، سمیحہ ، مبشر، یاسر، آصف۔
(۳) صبا شہناز(مولوی رضوان احمد سلفی) ان کے چار بچے ہیں۔ فیصل، تسنیم، رفعت ، عفت۔
(۴) وحیدہ نسرین شہناز(مولانا شمس الدین سلفی) ان کے دو بیٹے عزیز اور زہیر ہیں۔
سبھی چار بچوں کی ماشاء اللہ شادی ہوچکی ہے، مولوی حافظ عبدالرحمٰن سلفی (شہلہ پروین) ان کے تین بچے ہیں۔ بشار، ریحان، سنبل، مولوی مطیع الرحمٰن سلفی نصف قرآن کے حافظ ہیںاور عالمیت کر کے دیگر علوم میں اعلیٰ تعلیم کی اسناد حاصل کی، حال ہی میں انہوں نے ایک آٹھ سو صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب ’’جذبۂ شاہین۔ عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ‘‘ لکھ کر اچھی مقبولیت حاصل کی، ان کی بہو کا نام۔ (ساجدہ ربانی) وردہ، حماد، حامدہ، حمود، حمیدہ ،حمیرہ ان کے بچوں کے نام ہیں۔ حافظ مولوی سعیدالرحمٰن سلفی ہے، انہوں نے بھی ’’منتخب دعائوں‘‘ پر ایک کتاب مرتب کی ہے، جو کئی جگہوں پر داخل نصاب ہے۔ ان کی بہو کا نام(کہکشاں پروین) ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے دو لڑکوں سجاد اور حسان اور ایک لڑکی اذکی سے نوازا ہے۔ بقیہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی کم عمر ہیں۔ان کی شادی ہوئی ہے۔ شعیب الرحمٰن ، مولوی تک عربی پڑھ کر انٹرمیڈیٹ اور بی اے پہلے سال کا امتحان دے چکے ہیں، انہوں نے بھی ایک کتاب ’’ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا دور‘‘ پر تحریری کام کیا ہےجس کی اشاعت ثانیہ ’’ مکتبہ الفہیم نئو ناتھ بھنجن ‘‘ نے کی ۔ ان کی بیوی کا نام صبیحہ ہے ، ایک ساتھ جڑواں بچے پیدا ہوئے جن میں ایک بچی عمرہ اورعمار بچہ ہے۔ عبیدہ یاسمین شہناز یہ سب بچوں سے چھوٹی ہیں ان کی شادی ضلع بستی کے موضع کوہڑاکے اشفاق الرحمٰن سے ہوئی،ان کی تعلیم درجہ آٹھ عربی، ہندی، انگلش کی ہے۔دو بچیاں آپریشن سے پیدا ہوئیں، لیکن دونوں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔اللہ تعالیٰ والدین کو صبر جمیل عطا کرے اور دونوں جہان میں بہتر بدلہ عطا فرمائے۔