مطیع الرحمن عزیز
زندگی کے رنگوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی سادگی، محبت اور ملنسار طبیعت سے ہر دل میں گہری جگہ بنا لیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت ہیں ماموں جناب عبد الرشید صاحب، جن کا آبائی وطن شسئی خرد (نزد پتھرا بازار) ہے، جو روزگار کے سلسلے میں ممبئی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان کی شخصیت ایک ایسی شمع کی مانند ہے جو اپنے گرد روشنی بکھیرتی ہے، اور ہر خاص و عام کے دل میں اپنی محبت اور شفقت کی خوشبو چھوڑ جاتی ہے۔
ماموں عبد الرشید صاحب کی مقبولیت کا راز ان کی ملنساری اور خوش مزاجی ہے۔ وہ اپنوں اور غیروں سب کے ساتھ یکساں محبت اور خلوص سے پیش آتے ہیں۔ ان کی ہر بات، ہر عمل میں ایک ایسی سادگی اور کشش ہے کہ لوگ ان کی طرف خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے رشتہ داروں بلکہ پورے گاؤں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ کوئی ضرورت مند ہو یا کوئی خوشی کا موقع، ماموں عبد الرشید صاحب ہر جگہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ان کی یہ خوبی کہ وہ کبھی اپنے گاؤں کو نہیں بھولے، بلکہ مصروفیت کے باوجود وقتاً فوقتاً وہاں کا رخ کرتے ہیں، ان کے زمین سے جڑے ہونے کی دلیل ہے۔ وہ رشتہ داروں کے گھروں میں جاتے ہیں، ان کے حالات دریافت کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
ماموں عبد الرشید صاحب کی یہ خوبصورتی محض اتفاق نہیں، بلکہ ان کے والد، جناب محمد حنیف صاحب کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ نانا محمد حنیف صاحب خود بھی ایک دیندار، ملنسار اور دور اندیش انسان تھے، جنہوں نے اپنے بچوں میں ایسی اقدار پیدا کیں جو آج ماموں عبد الرشید صاحب کی شخصیت میں جھلکتی ہیں۔ چار بھائیوں—عبد الرشید، محمد رفیق، محمد عبد السلام اور عبد الواحد—میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک منفرد شخصیت رکھتا ہے، مگر ماموں عبد الرشید صاحب کی بات ہی کچھ اور ہے۔
ماموں عبد الرشید صاحب کی محبت اور مہمان نوازی کا ایک خوبصورت واقعہ اس وقت کا ہے جب راقم الحروف (مطیع الرحمن عزیز) ممبئی گیا۔ ماموں نے نہ صرف اپنے قیمتی وقت سے وقت نکال کر ممبئی کے خوبصورت مقامات کی سیر کرائی، بلکہ مشہور ہوٹلوں پر لذیذ کھانوں سے نواز کر اس سفر کو یادگار بنا دیا۔ تصویر میں ہم دونوں محو گفتگو ہیں، اور وہ لمحہ آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنی شاعرانہ طبیعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کا ایک خوبصورت شعر سنایا:
یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مِرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں مَیں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
یہ شعر ان کی شخصیت سے کس قدر میل کھاتا ہے! وہ خود بھی ایک شاہیں کی مانند ہیں—آزاد روح، بلند حوصلہ اور ہر قید و بند سے آزاد۔ ان کی زندگی کا فلسفہ اس شعر میں چھپا ہے کہ وہ دنیاوی تنگ نظریوں سے بالاتر ہوکر ہر ایک کے ساتھ محبت اور خلوص سے پیش آتے ہیں۔
ماموں عبد الرشید صاحب کی ایک اور نمایاں خصوصیت ان کا شعر و شاعری سے گہرا لگاؤ ہے۔ ہزاروں اشعار ان کے حافظے میں محفوظ ہیں، اور وہ دوران گفتگو موقع بموقع اشعار پڑھ کر محفل کو گرما دیتے ہیں۔ ان کا یہ شوق نہ صرف ان کی شخصیت کو دلکش بناتا ہے بلکہ ان کے علم و ادب سے شغف کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب وہ کوئی شعر پڑھتے ہیں، تو لگتا ہے جیسے الفاظ ان کے دل سے نکل کر سامعین کے دل تک جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا مذکورہ شعر ان کی زبان سے سن کر اس کی گہرائی اور معنی وہی سمجھ سکتا ہے جو ان کی محفل میں موجود ہو۔
ماموں عبد الرشید صاحب کی زندگی ایک سبق ہے کہ انسان اپنی سادگی، محبت اور خلوص سے دنیا کے ہر دل میں جگہ بنا سکتا ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے گاؤں سے لے کر ممبئی جیسے شہر تک ہر جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ ان کا ہر عمل، ہر بات، ہر شعر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ زندگی جینے کا اصل فن محبت بانٹنا اور دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ہے۔
ماموں عبد الرشید صاحب جیسے لوگ ہمارے معاشرے کا فخر ہیں۔ ان کی زندگی ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر صفحے سے محبت، خلوص اور انسانیت کی خوشبو آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں لمبی عمر، صحت اور خوشیاں عطا فرمائے، تاکہ وہ اپنی شاعرانہ طبیعت اور ملنسار مزاج سے مزید دلوں کو روشن کرتے رہیں۔ آمین!