مولانا عزیزالرحمن سلفی
اے کاش مری بگڑی کی طرف، قدرت کااشارا ہوجاتا
طوفاں میں پھنسی کشتی کامری، منجدھار کنارا ہوجاتا
تقدیر مری بھی بن جاتی، سرسبز مرا ہوجاتا شجر
محشر میں مری جانب بھی اگر، تسنیم کا دھارا ہوجاتا
تسکین مجھے حاصل ہوتی، ایمان مرا ہوتا تازہ
اک بار مری آنکھوں کو اگر، طیبہ کا نظارہ ہوجاتا
بدیوں کی گھنیری راتوں میں، پھرتا ہوں، کوئی رہبر بھی نہیں
اے کا ش مری شب میں بھی کوئی، ضوبار ستارہ ہوجاتا
عصیان و خطا کی وادی میں، آواز لگاتا پھرتا ہوں
مل جاتا مجھے اک کوئی خَضِر، یا کوئی سہارا ہوجاتا
بدعات کی آندھی ہے ہر سو، معدوم ہے روح ایمانی
الحاد کے خرمن پر نازل، پھر کوئی شرارا ہوجاتا
پھیلائے ہوئے دست دعا، روتا ہے عزیزؔ اور کہتا ہے
دنیا نہ ہماری ہو لیکن، اللہ ہمارا ہوجاتا