ابونصر فاروق
(۱) حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔(لقمان:۱۳)
اللہ کے سوا کسی اور کو غیبی مددگار سمجھنا، اُس سے دعا مانگنا اور فریادکرنا شرک ہے جو سب سے بڑا ظلم ہے۔غیبی مدد کے لئے اللہ کے سوا کسی اور پر بھروسہ کرنا شرک ہے۔دنیا میںاپنے حق سے زیادہ لینا ظلم ہے۔کسی کو اُس کے حق سے کم دینا یا کسی کا حق مار لینا ظلم ہے۔شرک اور ظلم ایسا گناہ ہے کہ بندہ جب تک اس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ نہیں دے گا اور جو گناہ پہلے ہو چکا ہے اُس کے لئے اللہ تعالیٰ سے برابر توبہ استغفار نہیں کرتا رہے گا یہ گناہ معاف نہیں ہوگا۔آج کل لوگ شرک ، ظلم اور حق تلفی کر رہے ہیں اور اس کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔اس لئے وہ توبہ بھی نہیں کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کی فریاد بھی نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی کوئی دعا یا عبادت قبول نہیں ہوتی ہے۔دعا کرنے اوراس کی تعلیم دینے والے لوگوں کو اوپر لکھی ہوئی باتیں بتاتے ہی نہیں ہیں۔
(۲) …اور(خوب جان لو کہ)ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا۔ (آل عمران:۵۷)یہاں بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی کوئی فرد ظالم ہوجاتا ہے وہ اللہ کی محبت اور رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔اور جو آدمی اللہ کی محبت اور رحمت سے محروم ہو گیااُسے شیطان اچک لیتا ہے اور اُس آدمی کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد کر دیتا ہے۔کیا ایسے مسلمان کی جو اللہ کے نزدیک ظالم بن چکا ہے نماز، دعایا کوئی بھی عبادت قبول ہوگی ؟
(۳) کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا اُنہیں ہدایت بخشے جنہوں نے ایمان کی نعمت پالینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا، حالانکہ وہ خوداس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور اُن کے پاس روشن نشانیاں بھی آ چکی ہیں ۔ اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیاکرتا۔(آل عمران:۸۶)
یہاں کافر و مشرک کے متعلق نہیں مسلمانوں کے بارے میںکہا جارہا ہے کہ جو لوگ ایمان کی نعمت پا چکے اور چمکتی ہوئی نشانیاں دیکھ کر اس بات پر خود گواہی دے چکے کہ رسول ﷺ کی ہر بات حق ہے پھر بھی رسول ﷺ کی سچی پیروی کرنے کو تیار نہیں ہیں تو ایسے لوگ ظالم ہیں اور ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔اللہ جس کو ہدایت نہ دے اُس کودنیا کی کوئی طاقت ہدایت نہیں دے سکتی اور ایسے آدمی کا جہنم میں جانا یقینی ہے۔
(۴) ………اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے،اُن (ظالموں)کی خواہشات کی پیروی کی، تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ (البقرہ:۱۴۵)اللہ نے جو علم بھیجا ہے وہ سارا کا سارا قرآن کے اندر آج بھی ویسے ہی موجود ہے جیسے نبی ﷺ کے زمانے میں تھا۔جو لوگ قرآن پڑھ کر اُس کا علم حاصل کرنا نہیں چاہتے اور اللہ کے احکام کی پیروی کرنے کی جگہ اپنے فرقے کے سرداروں کی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ ظالم قرار دے رہا ہے۔کتنے ایسے مسلمان ہیں جو اپنے آپ کو بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور خانقاہی کہنے کی جگہ صرف مسلمان کہہ رہے ہیں ؟
(۵) ……پھر اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کر کے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط رہنمائی کرے۔ یقینا اللہ ایسے لوگوں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔(الانعام:۱۴۴)
یہاں اُن عالموں اور مولویوں کے متعلق کہا جارہا ہے کہ قرآن اور حدیث میں دین کی جو سچی باتیں بتائی گئی ہیں اُن کی تعلیم عام لوگوں کو نہیں پہنچا کر اپنی من گھڑت باتوں کو دین کی باتیںبتا کر اپنے پیچھے چلنے والوں سے اُن کی پیروی کرا رہے ہیں۔ان لوگوں کے پیچھے چلنے والے قیامت میں اللہ تعالیٰ سے کیا کہیں گے یہاں پڑھئے:’’ وہاں یہ کافرکہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ذرا ہمیں دکھا دے اُن جنوں اور انسانوں کوجنہوںنے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں گے، تاکہ وہ خوب ذلیل و خوار ہوں۔‘‘(حم السجدہ:۲۹)
آج کے یہ دنیا دار اور دولت کی پجاری مولوی اور مولانا کسی دوسرے کو سیدھی راہ کیادکھائیں گے اللہ خود اُن کو سیدھے راستے پر چلنے سے محروم کر دیتا ہے۔ظاہر میں یہ لوگ عالم اور فاضل سمجھے جاتے ہیں لیکن ان آیات کی روشنی میںاللہ کے نزدیک دراصل شیطان کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔
(۶) حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (آج یہ دنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ ان کو اکٹھا کرے گاتو (یہی دنیا کی زندگی انہیں ایسی محسوس ہوگی) جیسے یہ صرف ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھہرے تھے(اُس وقت ثابت ہو جائے گا کہ) اصل میں سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ سیدھی راہ پر نہ تھے۔ (یونس:۴۴/۴۵)
(۷) پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اُس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی نہیں ٹھہرنے والی کگار پر اٹھائی اور وہ اُسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری ؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔(التوبہ:۱۰۹)
دنیا میں ہر آدمی اپنی رہائشی عمارت بناتا ہے۔ایک آدمی کا محل پکی زمین پر ہے جہاں اُس کے گرنے کا کوئی ڈر نہیں اور ایک آدمی دریا کنارے پانی سے کٹنے والی زمین پرمکان بنا تا ہے، جو سیلاب کے پانی میں بہہ جائے گا۔ جو لوگ اللہ کی رضا ، خوشنودی اور فرماں برداری کی زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنی پکی مستحکم مظبوط عمارت بنا رہے ہیں اور جو لوگ اللہ کو بھول کر دنیا داری میں لگے ہوئے ہیں اُن کا سارا کام دریا کے کگار پر مکان بنانے جیسا ہے جس کو ایک نہ ایک دن برباد ہو ہی جانا ہے۔
دنیا کی زندگی میںانسان آخرت کو بھولا ہوا ہے۔اور شیطان اُس کو بھلا وے میں ڈالے ہوئے ہے۔نادان انسان سمجھ رہا ہے کہ جیسے اُس کو موت آنی ہی نہیں ہے۔قیامت تک جینے کے منصوبے بنا رہا ہے اور زمین پر ہی شداد کی طرح اپنی جنت بنانے میں لگا ہوا ہے۔لیکن جب موت اُس کو اپنے پنجے میں کس کر دنیا سے لے جائے گی اور قیامت برپا ہونے کے بعد جب اُس کو اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم والی زندگی کا سامنا ہوگا تب اُس کی سمجھ میں آئے گاکہ اس آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کتنی چھوٹی اور مختصر تھی۔اُس وقت یہ سوچے گا کہ کاش میں نے اس حقیقت کو سمجھا ہوتا تو آ ج یہ انجام نہ دیکھنا پڑتا۔لیکن اُ س وقت اُس کا ایسا سوچنا اُس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ کاش دنیا میں ہی اس ناسمجھ اور نادان انسان کو عقل اور ہوش آ جائے۔جو لوگ ظالم بن کر آج زندگی گزار رہے ہیں دنیا میں تو وہ اللہ کی رحمت، برکت، فضل اوراجر و انعام سے محروم ہیں ہی،ان کی آخرت بھی تباہ و برباد ہو جائے گی اور اُس وقت اپنی نادانی کا احساس ہوگا کہ ایک گھڑی بھر کی دنیا کے عیش و عشرت کے لئے ہم ہمیشہ ہمیشہ کی جنت سے محروم ہو گئے۔
(۸) ……کاش تم ظالموں کو اُس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکراتِ موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں، اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جان، آج تمہیں اُن باتوں کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے، اور اُس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی (بغاوت) دکھاتے تھے ۔(الانعام:۹۳)
یہاں بتایا جارہا ہے کہ کافر و مشرک اور ظالم لوگوں اور اُن کے جیسے بن جانے والے مسلمانوں کی موت کا وقت جب آتا ہے تب کاش تم اُن کی بے بسی کی حالت دیکھ سکو۔وہ مرنا نہیں چاہتے لیکن موت کے فرشتے زبردستی اُن کی روح ویسے ہی قبض کرتے ہیں جیسے کوئی آدمی اپنا مال بچانے کی کوشش کررہا ہو اور طاقت ور ہستی اُس کا مال زبردستی اُس سے چھین کرلے جارہی ہو۔ اللہ سے بغاوت کرنے والے ایسے سب لوگوں کو ذلیل کرنے والا عذاب قبر میں بھی اور جہنم میں بھی دیاجاتا رہے گا۔
(۹) کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں،اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔(التوبہ:۱۹)
دین کے نام پر نماز، روزے اور حج کا دکھاوا کرنا ویسا ہی ہے جیسے ایک آدمی ٹھنڈے ٹھنڈے آرام سے حاجیوں کو پانی پلا رہا ہے یا خانہ کعبہ کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ایسا آدمی اللہ کے نزدیک اُس آدمی جیسا نہیں ہو سکتا جو اپنی جان سے اور مال سے اللہ کی راہ میں دن رات جہاد میں لگا ہوا ہے۔دکھاوا کرنے والا مشرک بن کر ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔آج وہ جہاد نہیں ہو رہا ہے جہاں میدان جنگ میں لوگ دشمنوں سے لڑکر اپنی جان دیا کرتے تھے۔آج علمی اور عقلی بنیادوں پراسلام دین حق اور امن و سکون و سلامتی کا علم بردار ہے یا یہ اپنے ماننے والوں کو ظالم،انسان دشمن اور دہشت گرد بناتا ہے اس پر بحث ہو رہی ہے۔آج علمی بنیاد پر اوراپنے اعلیٰ کردار و اخلاق سے دین کو دنیا والوں کے مفید اور بہتر ثابت کرنے کا جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
(۱۰) اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا،حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کئے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کئے ان میں سے کوئی بھی پورا نہ کیا۔ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا،اب مجھے ملامت نہ کرو اپنے آپ ہی کو ملامت کرو،یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا،میں اُس سے بری الذمہ ہوں۔ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔(ابراہیم:۲۲ )
جو لوگ آج قرآن و سنت کی براہ راست تعلیم حاصل کر کے اُن کی پیروی کرنے کی جگہ اپنے فرقے کے مولویوں کی باتوں پر عمل کر رہے ہیں وہ در اصل اللہ اور رسول کی باتوں کا انکار کر رہے ہیں یا ان باتوں کو نیچا دکھانے کا جہاد کر رہے ہیں۔اور شیطان کو خدا کی خدائی میں شریک بنائے ہوئے ہیں۔ جس شیطان کی یہ پیروی کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ شیطان قیامت میں اپنے آپ کو مجرم نہیں مان کر انسانوں کو ہی الزام دے گا کہ ہم نے تم پر کوئی زور زبردستی کی تھی؟ تم تو خود اپنی ناپاک خواہشات کی پیروی کرنے کی وجہ سے اللہ اور رسول کی باتوں کی جگہ میرے اور میرے شاگردوں کی باتوں کی خوشی خوشی پیروی کر رہے تھے، اس لئے آج مجھ کو یہ الزام نہ دو کہ شیطان نے ہمیں گمراہ کر دیا تھا۔دراصل تم خود انتہائی گمراہ لوگ تھے۔