ڈاکٹر سیّد احمد قادری
ملک میں فرقہ پرستی اور نفرت کو فروغ دینے والی اور ہر محاذ پر ناکام ثابت ہو چکی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حکومت کو 2024 ء کے عام انتخاب میں شکست دینے کے لئے ملک کی تقریباََ تمام سیکولر پارٹیوں نے بہت زمانے کے بعد بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی رہنمائی میں متحدہ محاذ ’ ’ انڈیا‘‘قائم کرتے ہوئے یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا ،تب سے مرکز کی حکمراں جماعت بھاجپا کی پریشانی بڑھ گئی تھی کہ گزشتہ دو ٹرم کے انتخاب میں حذب مخالف کے ووٹوں کے بکھراؤ اور ای وی ایم کی سیٹنگ سے جو کامیابی ملی تھی اس بار ویسی کامیابی مشکل نظر آ رہی تھی ۔ ادھر حذب مخالف کا اتحاد اور ادھر پورے ملک میں ای وی ایم کے خلاف بڑھتا احتجاج ۔ ان حالات میں انڈیا کی تشکیل میں پیش پیش رہنے والے نتیش کمار کے ذریعہ اس اتحاد کو توڑنا ضروری تھا تاکہ بھاجپا پر ناکامیوں کے جو بادل چھا رہے تھے وہ چھٹ جائے اور ان کی کامیابی یقینی ہو جائے ۔یہی وجہ تھی کہ نتیش کمار پر بھاجپا کے چانکیہ طرح طرح کے ڈورے ڈال رہے تھے ، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ جس نتیش کمار کو بہار کی دھرتی پر ہی امت شاہ نے ذلیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے لئے بی جے پی کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئے گئے ہیں ۔ ادھر بی جے پی کے بہار ریاستی صدر سمراٹ چودھری نے جس طرح نتیش کمار کو ذلیل کیا تھا اور جیسے جیسے نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے اور کہا تھا کہ ان کے سر کی پگڑی اب اسی وقت کھلے گی جب وہ نتیش کمار کو برباد کر دینگے۔نتیش کمار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی نے بھی نتیش کمار کے لئے جن کلمات کا استعمال کیا تھا انھیں سننے کے بعد تو کوئی بھی باوقارشخص واقئی مٹّی میں مل جاتا یا سیاسی طور پر مر جاتا لیکن ایسے دروازے کی جانب تھوکتا بھی نہیں ۔ لیکن آج کی سیاست نے اپنی معتبریت اور وقار پوری طرح کھو دیا ہے اور سیاست بس ذاتی مفادات کا نام رہ گیا ہے جو جس دروازے پر سرنگوں نہ کرائے ۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں نہ کوئی کسی دوست ہوتا ہے نہ ہی دشمن بلکہ سب کا اپنا مفاد ہوتا ہے اور نتیش کمار نے انڈیا کو چھوڑ کراور بھاجپا کا دامن پکڑ کر بلا شبہ اپنی مفاد پرستی اور موقع پرستی کا ثبوت دیا ہے ۔ کل تک جس سمراٹ چودھری نے نتیش کمار کا گالیاں دی تھیں اور نتیش کی شکست تک سر سے پگڑی نہیں اتارنے کی قسم کھائی تھی اب وہ گالیاں دینے والا ان کا ڈپٹی سی ایم بن کر ان کی بغل میں بیٹھ رہا ہے اور نتیش جی اس شخص کی گالیوں کو یاد کرینگے اور کہینگے میں تو گالیاں کھا کر بے مزہ نہیں ہوا ۔ موجودہ عہد میں سیاست بلا شبہ بہت ہی نچلی سطح پر آ گئی ہے لیکن جو لوگ خود کو لوہیا وادی اور جئے پرکاش کا ہمنوا بتاتے ہیں ،ان کی سیاست اس نچلے درجہ پر پہنچ جائے گی ، اس کا یقین نہیں ہوتا ہے ۔ نتیش کمار کی اس موقع پرستی پر بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے طنزیہ لہجے میں کہا ہے کہ نتیش کمار کے ڈی این اے میں ہی موقع پرستی ہے اور ہم لوگوں (انڈیا) کو پہلے ہی سے شک تھا کہ نتیش کمار کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتے ہیں ۔ غالباََ اسی وجہ کر ممتا بنرجی نے متحدہ انڈیا میں نتیش کمار کے کنوینر بنائے جانے کی مخالفت کی تھی اور میرے خیال میں انڈیا کے حق میں یہ اچھا ہی ہوا کہ اس اتحاد سے نتیش جی نکل گئے ورنہ ممکن تھا کہ بیچ منجدھار میں وہ انڈیا کا ساتھ چھوڑ کر بھاجپا کے چانکیہ سے اپنے مفاد میں ہاتھ ملا لیتے اور حذب مخالف کا سارا پلان تاش کے پتوں کی طرح بکھر جاتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نتیش نے جیسی سیاست ا سوقت کی ہے ویسی کمتر سیاست کی ان سے عمر کے ا س آخری پڑاؤ پر توقع نہیں تھی ۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاست میں انسانی فلاح کا سیاسی نظریہ ، اصول ، ضابطہ ، ایثار و قربانی ،ملک کے مفادات کے تئیں احساس ذمہّ داری ،اپنے مفادات کے بجائے ملک و قوم کے مفادات کی ترجیح،عوامی خدمات کو فوقیت ، ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کی عملی کوشش ، رواداری ، وضع داری جیسے عوامل کارفرما ہوتے تھے ۔یہ باتیں صرف کتابی نہیں ہیں بلکہ اسی ملک ہندوستان میں اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں راجندر پرساد، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد ،گلزاری لال نندہ ، لال بہادر شاستری ،حسرت موہانی وغیرہ جیسی قدآور شخصیات نے اپنی سیاسی وابستگی سے ملک کی سیاست کو معتبریت اور وقار عطا کیا ہے ۔ بہار کی بات کریں تو اسی سرزمین پر عبدالباری ، جئے پرکاش نرائن اور کرپوری ٹھاکر وغیرہ اپنی سیاست سے یہ ثابت کر چکے ہیں وہ سیاست کے میدان میں ملک و قوم کی ترقی اور فلاح کے لئے آئے ہیں ،ذاتی مفادات کے لئے نہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے ملک کی سیاست کی معنویت بدلنے لگی اور ایک ادارہ کے سروے کے مطابق ملک کے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں داغدار ، بد کردار ، قاتلوں ، زانیوں ، اور فرقہ پرستوں کی بھیڑ ہے ۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بہار کی سیاست میں اس بار جو سیاسی اتھل پتھل مچی ہے ۔ اس کے پیچھے بھی یہی راز کارفرما ہے ۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار جو صرف 17 ماہ قبل ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو کئی بار کی طرح دغا دے کر لالو یادو اور ان کے بیٹے تیجسوی یادو کی شرن میں آئے تھے اور راشٹریہ جنتا پارٹی جو گزشتہ انتخاب میں سب سے بڑی پارٹی (79 )بن کر ابھری تھی کے ساتھ ساتھ کانگریس ، سی پی ایم ، سی پی آئی اور مالے کے ساتھ حکومت کی تشکیل کی اور تیجسوی یادو کو ڈپٹی وزیر اعلیٰ بنایا تھا ۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ بار بار پلٹی مارنے والے نتیش کمار ایک منجھے ہوئے پڑھے لکھے سیاست داں ہیں ان کا امیج بھی آج کی گندی سیاست میں قدرے بہتر ہے ، کرپشن کے بھی الزامات نہیں لگے ہیں ، فرقہ پرستی سے بھی دور ہیں لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہر وقت پاور میںرہنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے یہ ہر اصول و نظریہ کو توڑنے میں ذرا بھی ہچکچاتے نہیں ہیں ۔ پاور کے لئے کبھی بھی اور کسی سے بھی ہاتھ ملانے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، دور اندیش سیاست داں ہیں اس لئے بدلتے وقت کی نبض کو بھی پہچانتے ہیں۔ اس لئے کبھی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ اور کبھی کمیونل پارٹی کے ساتھ حکومت بنانے اور چلانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے شدید نفرت کا کئی بار اظہار کر چکے ہیں ۔ نریندر مودی نے ایک بار ان سے ہاتھ ملا لیا تھا تو وہ سخت خفا ہوئے تھے ۔ بھاجپا کے نیتاؤں کو رات کے کھانے پر مدعو کئے جانے کے بعد بی جے پی کے ایک لیڈر کی کسی بات ناراض ہو کر ان لوگوں کے سامنے سے دسترخوان تک کھینچ لئے جانے پر بھی نہیں ہچکچائے تھے ۔ بھاجپا سے جب رشتہ توڑا تھاتو’’ مٹّی میں مل جائنگے لیکن ان لوگوں کے ساتھ اب نہیں جاینگے ، پھر یہ بھی کہا کہ مر جایئنگے لیکن ان لوگوں کے ساتھ جانا قبول نہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘لیکن افسوس کہ ایک ایسا سیاست داں جو عمر کے آخری پڑ پر کھڑا ہے اور بلا شبہ سیاست کی آخری اننگ کھیل رہا ہے وہ ایسے وقت میں اپنے مفادات کے لئے اس طرح موقع پرستی کا مظاہرہ کرے گا ۔ اس کا وہم و گمان ان کے سیاسی اور غیر سیاسی قریبی دوستوں کو بھی نہیں تھا ۔ اس بار کی ان کے پلٹی مارنے پرکئی ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر جس طرح ان کے سلسلے میں تبصرے کئے جا رہے ہیں وہ کسی باوقار اور سنجیدہ شخص کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ کئی لوگ تو یہ بھی کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب تو انھیں دیکھ کر گرگٹ بھی شرمائے گا کہ یہ شخص تو ہم سے بھی رنگ بدلنے میں بازی لے گیا ۔ اب تو ان کے نام لئے جانے کے بجائے پلٹو رام سے یاد کیا جا رہا ہے ۔ اس بار گورنر ہاؤس سے نکلتے ہوئے جب پریس کے لوگوں نے انھیں گھیرا تو ایک پریس والے نے بغیر کسی جھجھک کے پوچھا کہ آپ کو اوسر وادی (موقع پرست) کہا جا رہا ہے ، نتیش کمار نے اس جملے کو سنا لیکن وہ کوئی جواب نہیں دے سکے ۔اس سے بڑھ کر کسی بھی شخص کی بے عزّتی کیا ہو سکتی ہے ۔ ریاست بہار کے 17 ویںاسمبلی کے انتخاب ،جو 2020ء میں ہوا تھا۔اس وقت بھی نیتش کمار این ڈی اے کے حصہ تھے اوران کے انتخابی جلسہ میں جس طرح سے احتجاج اور مظاہرے دیکھے گئے اور عوامی احتجاج پر نیتش کمار کو جس طرح اپنے صبر و تحمل کو کھوتے ہوئے دیکھا گیا تھا اور انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ یہ ان کا آخری الیکشن ہے اس لئے عزت رکھ لو ،یہ سب یقینی طور پر ان کی بد حواسی کو ظاہر کرتا تھا۔ حاجی پور کے ایک انتخابی جلسہ میں مرکزی وزیر مملکت داخلہ نتیہ نند رائے نے جب اپنے خلاف زبردست عوامی غصہ اور مخالفت دیکھی تو ان کی تو گھگھی ہی بندھ گئی تھی اور مائک پر ہی اپنی رکچھا اور لاج بچانے کی گوہار لگانے لگے تھے۔ ایسے مناظر اس بات کے مظہر تھے کہ بہار کے اس اسمبلی انتخاب کا منظر نامہ کیا تھا ۔ پھر بھی این ڈی اے کا دعویٰ تھا کہ اس بار بھی ان کی حکومت بن رہی ہے ۔ یہ دعویٰ سوالیہ نشان ضرور لگاتا ہے کہ جب عوام پوری طرح این ڈی اے کی مخالفت پر اتری ہوئی ہے پھر یہ اپنی کامیابی کا دعویٰ کن بنیاد پر کر رہے تھے۔ جس دن نتیجہ کا اعلان ہوا یھا وہ بھی یادگار اور سیاست کی دنیا میں شرمناک رہا تھا کہ کامیاب امیدوار کے طور پر کئی انتخابی حلقوں سے آر جے ڈی کے امیدوار کی کامیابی اعلان کر دیا گیا لیکن بعد میں بتایا گیا کہ ایسا غلطی سے ہوا ہے ۔ غلطی کسی ایک جگہ ہو سکتی ہے کئی جگہوں پر نہیں ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی کو اس بات کا بہت قلق ہے کہ اس اہم ریاست بہار میں لاکھ کوششوں کے باوجودوہ اب تک یہاں اقتدار سے محروم ہے ۔ نیتش کمار نے ضرور بی جے پی کی کم سیٹوںکے باوجود اپنے سیاسی مفاد کے لئے بہار کے اقتدار میں بی جے پی کو حصہ دار بنادیا تھا۔ لیکن اب بی جے پی حصہ دار بننے کی بجائے خود ہی پوری طرح برسر اقتدار ہونا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بڑے ہی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے بی جے پی اپنے حلیف اور محسن نیتش کمار کو حاشیہ پر ڈالنے کا منصوبہ بنا چکی ہے ۔ نیتش کمار اس وقت بلا شبہ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں کہ ان سے لالو یادو کی پارٹی آر جے ڈی ، رام بلاس پاسبان (چراغ پاسبان) کی پارٹی ایل جے پی اور بھارتیہ جنتا پارٹی سب کے سب نیتش کمار کو کنارے لگا نا چاہتے ہیں ۔ اس کے لئے بی جے پی اپنے پرانے حلیف رام بلاس پاسبان کے بیٹے چراغ پاسبان کے ساتھ مل کر درپردہ بڑے ہی شاطرانہ انداز میںسیاسی کھیل ،کھیل رہی ہے ۔ ادھر تیجسوی یادو نے بہار کے نوجوانوں میں بڑھتی بے روزگاری جیسے اہم مسئلہ پر اس طرح انگلی رکھ دی ہے کہ ان کی مقبولیت کافی بڑھ گئی ہے ۔ یہی وجہ کہ مرکزی حکومت لالو یادو اور ان کے بیٹے تیجسوی یادو سمیت ان کے پورے خاندان کو ای ڈی کے جال میںالجھا کر کنارے کرنے کے درپئے ہے۔
ابھی ابھی نویں بار بہار کے وزیر اعلیٰ کی اپنی حلف برداری میں نتیش کمار نے ایک بھی کسی مسلم کو وزیر نہیں بنایا ہے ۔ جس کے باعث ریاست کے مسلمان بھی نیتش کمار سے کافی خفا ہیں۔ نیتش کمار کی پارٹی جے ڈی یو نے پارلیامنٹ میں تین طلاق، سی اے اے، آرٹکل 370 وغیرہ کی حمایت کرتے وقت ذرا بھی مسلمانوں کے احساسات و جذبات کا خیال نہیں رکھا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اردو زبان کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے باوجود اسکولوں کے نصاب سے اس کی لازمیت ختم کر اسے اختیار ی کر تے ہوئے اردو زبان کو جڑ سے ہی ختم کئے جانے کی کوشش سے اردو زبان کو کافی نقصان پہنچا ہے ۔ جس کے خلاف اردو عوام کی جانب سے زبردست احتجاج اور غم و غصہ کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا ۔ بہار اردو اکاڈمی اور اردو مشاوری کمیٹی جیسے اہم ادارے کئی برسوں سے معطل ہیں۔ یہ سب بھی اردو عوام کی ناراضگی کا سبب بنے گا ۔ دراصل جب بھی کوئی بر سر اقتدار ہوتا ہے ،وہ اقتدار کے نشہ میں اتنا چور ہو جاتا ہے کہ وہ بہت سارے اہم مسئلوں کو خاطر میں نہیں لاتا ہے ،لیکن جب مصیبت آن پڑتی ہے تب ہوش آتا ہے ، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔
اس وقت ملک کی سیاست کی بساط پر کچھ نوجوان راہل گاندھی، اکھلیش یادو ، تیجسوی یادو، اور کنھیا کمار وغیرہ کی بڑھتی کامیابی نے نریندر مودی ،جن کے کرشمائی اثرات اب بہت تیزی سے ڈھلان پر ہیں، بہت پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔ ان تمام منظر نامے کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت لاکھ نتیش کمار جیسوں کا ساتھ لے لے لیکن اس بار انڈیا یقینی طور پر این ڈی اے پر بھاری پڑے گا ۔