Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

اساتذہ کی کرم فرمائیاں

تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی (سابق استاذ جامعہ سلفیہ بنارس)

ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)


اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکرواحسان ہے جس کی وجہ سے سارے اساتذہ کرام میری طرف نگاہ التفات رکھتے تھے۔
(۱) علامہ عبدالمعید صاحب رحمۃ اللہ علیہ:- (وفات دسمبر ۱۹۸۰ء؁ )سے طالب علمی کے زمانہ میں کچھ کہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا۔ تھے تو بہت دبلے پتلے، نحیف ولاغر مگر علم کا سمندر تھے۔ جامعہ سلفیہ میں جب میرا تدریس کے لیے آنا ہوا تو تھوڑا سا خوف کم ہوا۔ مولانا بڑی ہمت افزائی کرتے اور بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔ محرم کے دونوں روزے کے موقع پر تمام اساتذہ کے افطار کی دعوت کرتے۔ ایک بار میں نے پھل کھانے سے پرہیز کیا کیوں کہ مجھے نزلہ تھا تو آپ نے فرمایا بے خوف ہوکر کھائو میں نے دم کردیاہے نقصان نہیں کرے گا۔
میرے آنے کے دوسرے سال آپ نے مجھ سے دوباتیں فرمائیں:
(۱) کسی چالاک باشعور طالب علم کو میرے پاس کردو وہ میرے کمرے میں رہے اور میری ضروریات کی تکمیل کرے۔ میں نے مولوی عبدالکریم رحمہ اللہ تعالیٰ کو جو میرے ہی گائوں کے تھے بڑے سنجیدہ مزاج اور ذی فہم تھے ان سے میں نے مولانا کی خواہش کا تذکرہ کیا اور میں نے کہا کہ میری نظر میں آپ اس کے لیے بہتر رہیں گے۔ ماشاء اللہ وہ تیار ہوگئے اور آخری لمحات تک آپ کے کمرے میں رہے۔ مولانا دائم المریض تھے کہا کرتے تھے کہ مجھ کو چالیس سال سے ٹی بی کا مرض ہے کوئی انجکشن لگوانا ہوتا تو مجھ سے لگواتے۔ فوری طور پر کسی دوا کی ضرورت ہوتی تومجھ سے پوچھتے۔ او ر بفضلہ تعالیٰ میری بتائی ہوئی دوا سے فائدہ ہوجاتاتھا۔ وفات سے چند روز قبل شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ جامعہ تشریف لائے ۔ کسی طرح مولانا کے استاد پڑتے تھے مولانا اس وقت فریش ہوچکے تھے لیکن خود سے اٹھ بیٹھ لیتے تھے مغرب کی نماز کے بعد شیخ الحدیث صاحب رحمتہ اللہ علیہ مولانا کی تیمار داری کے لیے میرے ساتھ گئے۔ دروازہ پر کچھ آہٹ محسوس ہوئی، مولانا فوراً چارپائی سے کھسک کر نیچے بیٹھ گئے اور چارپائی کا ٹیک لگالیا۔ شیخ الحدیث صاحب نے کئی مرتبہ لیٹ جانے کے لیے کہا مگر جب تک شیخ صاحب اس کمرے میں رہے آپ چارپائی پر نہیں لیٹے۔ یہ ہے استاد کا ادب واحترام، آج ہمارے اندر یہ صفات کہاں موجود ہیں؟
میرے آنے کے دوسرے سال مولانا دن بہ دن کمزور ہوتے جارہے تھے۔ بڑا اضمحلال رہتا۔ آنکھیں خود بخود ضعف کی زیادتی کی وجہ سے بند ہوجایا کرتیں۔ مولانا نے مجھ سے فرمایا : عزیز الرحمٰن! میری گھنٹی تم پڑھا دیا کرو ، مجھے اب چلنے پھرنے اور بولنے کی سکت نہیں اور عروض بھی پڑھایا کرو بلکہ وہ ایک گھنٹی تم اپنے لیے لاز م کرلو۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ حضرت العلام یکتائے زمانہ استاذنے میرے اوپر اعتماد کیا میں نے فوراً آپ کا حکم قبول کر لیا اور دوسرے روز سے ہی ان کی گھنٹیاں پڑھانی شروع کردیں۔ اور سال بھر پڑھایااور عروض تو میرے لیے لازم ہوگئی۔ اس سال تفسیر کی تین گھنٹیاں میرے پاس ہوگئی تھیں۔ جلالین ازابتداتا سورہ اعراف ختم، یہ پہلے سے ہی میرے پاس تھی، جلالین از انفال تا سورہ کہف ختم، تیسری فتح القدیر جو ڈاکٹر ازہری صاحب کی گھنٹی تھی سفر میں جاتے وقت میرے حوالے کرجاتے تھے۔ مولانا عبدالمعید صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) میرے کرم فرما استاذ محترم دل لگی اور ہمت افزائی کے طور پر مجھے اس سال شیخ التفسیر کہا کرتے تھے۔ (غفراللہ لہ ویرحمہ ویدخلہ الجنۃ جنۃ الفردوس)
دسمبر۱۹۸۰ء؁میں مولانا کا انتقال ہوا۔دوسرے دن جب گھنٹی بجی تو مولانا کے کمرے کے سامنے پہنچ کر مولانا محمد رئیس صاحب ندوی (مرحوم) نے درد بھرے انداز میں کہا مولانا (کئی لوگ موجود تھے میں بھی تھا) اب کس سے کچھ پوچھنے جائیں گے؟ کون ملے گا اب؟ مولانا کا معاملہ یہ تھا کہ سوال پورا نہیں ہوتا کہ جواب حاضر۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔ یہ قدر تھی ایک سچے عالم کی۔ ان کے انتقال کے بعد صدیق مکرم جناب مولانا محمدمستقیم سلفی کی فرمایش اور اصرا ر پر میں نے ایک تعزیتی نظم لکھی جو بے حد مقبول ہوئی ؎


آج پیارے ہوگئے اللہ کو عبدالمعید
ایں دل محزوں بہ پرنم چشم ایں نظارہ دید

(۲) مولانا محمدعابدرحمانی رحمتہ اللہ علیہ:- میرے بڑے محسن، شفیق اور کرم فرما استاد تھے انہی کے ایماء پر مجھے جامعہ سلفیہ میں جگہ ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔ بڑے کشادہ دست، بڑے مہمان نواز، پاکیزہ اوصاف کے مالک تھے۔ جامعہ کے سارے مہمان ان کے مہمان ہوا کرتے تھے۔ ششماہی وسالانہ امتحان کے موقع پر سوالات کا انتخاب کرکے نشان لگالیتے۔ پھر مجھے بلاتے۔ پہلے دوکیلا اور دوانڈا بوائل کھلاتے پھر کہتے کہ ان نشان زدہ جگہوں سے عبارت لے لو اور پرچہ پر لکھ ڈالو ویسے تو مولانا کی تحریر بڑی اچھی تھی مگر سوالات عربی زبان میں ہوا کرتے تھے۔ شاید عربی لکھنے میں کچھ جھجھک کی وجہ سے خود نہ لکھتے بلکہ مجھ سے لکھواتے تھے۔ اتنا ذہین تھے کہ پوری کتاب کا مفہوم ان کی ذہن میں ہوتا تھا۔فنون کی جتنی کتابیں ہیں ان کوازبر تھیں۔ ہدایۃ الحکمہ، اس کی شرح مبتذی، شرح ہدایۃ الحکمہ قطبی، شرح العقائد انسفی جیسی مشکل کتابیں ان کے ذہن میں محفوظ تھیں حدیث کون سی کہاں ہے، یہ بخوبی ان کے ذہن میں تھا، اس لیے طلبہ کو وہ خلاصہ بتاتے تھے اور طلبہ ان سے پوچھتے بھی تھے، ہدایۃ الحکمہ مولانا محمد مستقیم پڑھاتے تھے جب وہ ملازمت کے لیے جامعۃ الملک ریاض گئے تو یہ کتاب مولانا محمد عابد رحمانی کے ذمہ لگائی گئی۔ اس سال کے طلبہ کہتے ہیں کہ مولانا نے ہم سے صرف ایک بار پوچھا کہ کہاں سے پڑھنا ہے۔ پھر سال بھر پڑھایا مگر کتاب ہاتھ میں نہ لیا۔ ۱۹۹۲؁ء میں جامعہ کی تدریس چھوڑدی، کلیتہ الطیبات ڈومریاگنج میں پڑھانے لگے ۔ اس کے بعد کچھ دنو ں تک لال گوپال گنج الہ آباد میں پڑھایا۔ اس کے بعد گھر بیٹھ گئے ۔ ان کا استحضار اتنا عمدہ تھا کہ ان سے اچانک فوری طور پر کسی موضوع کے سلسلے میں اظہارخیال کے لیے کہا جاتا توفوراً تیار ہوکر کھڑے ہوجاتے۔ اور قرآن وحدیث کے دلائل سے اپنے کلام کو مزین ومدلل پیش کرتے تھے ایک مرتبہ ہم لوگوں کی تعلیم کے زمانہ میں جب ڈاکٹر ذاکرحسین کاانتقال ہوا تو ایک تعزیتی محفل اساتذہ وطلبہ کی منعقد ہوئی مختلف اساتذہ نے اپنے اپنے انداز سے صدر جمہوریہ ڈاکٹرذاکر حسین کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔ مولانا کی باری آئی تو انہوںنے حمدوثنا کے بعد ایک چبھتا ہوا شعر پڑھا اور محفل کو باغ باغ کردیا ؎


زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں

ایک مرتبہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے تو اس میں ایک بہت کٹیلا شعر پڑھا ؎


سنبھلتا نہیں جن سے اپنا دوپٹہ
سنبھالیں گے کیسے بھلا دل کسی کا

آپ کی یادداشت بہت قوی تھی کسی بھی مسئلہ میں قرآن وحدیث کا حوالہ ان کے ذہن میں ہوتا۔ خصوصی طور پر صحیحین کی حدیثوں کا حوالہ ضروردیتے۔ وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
(۳) استاذمحترم مولانا عبدالوحید محمدابوالقاسم رحمانی:- جامعہ سلفیہ کے اولین شیخ الجامعہ تھے۔ مجھ سے بڑی ملائمت اور ملاطفت سے پیش آتے۔ اپنے آفس کا کام مجھ سے کراتے کچھ دن مجھے یہ ذمہ داری بھی دی کہ آپ کے آفس میں گھنٹی لگنے سے دس پانچ منٹ پہلے جائوں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کون سے اساتذہ اولین وقت میں درس کے لیے اترتے ہیں اور کون تاخیر کرتا ہے اور آفس کھلارہنے کی وجہ سے اساتذہ پہلی گھنٹی میں درسگاہ میں جانے سے پہلے رجسٹرمیں اپنی حاضری لگادیاکریں پہلے آپ کا کوئی نائب نہ تھا اور نہ کوئی سکریٹری تھا جو آپ کی تمام امور میں مددکرسکے۔ اس وقت اپنے آفس کا کام مجھ سے کراتے یا خود انجام دہی کے وقت مجھے شامل کرلیاکرتے۔ کبھی کبھی آئے ہوئے خطوط کا جواب املا کراتے۔ پہلے کوئی امتحانی کمیٹی نہ تھی۔ اس لیے امتحان کے مواقع پر پرچوں کی دیکھ بھال میری ذمہ داری میں رکھتے۔ ہر امتحان گاہ کے لیے پرچوں کے علاحدہ علاحدہ کرنے کا کام کبھی میرے ساتھ مل کرکرتے او رکبھی تنہا میرے ذمہ لگادیتے۔ نصابی لائحہ عمل کی تقسیم او راس کے لکھنے کی ذمہ داری میری تھی۔ طلبہ کے کمروں کی تقسیم ان کی رہائش کا تعین ، ہر کمرے میں دونگراں کا تقررمیرے ذمہ رہتا، امتحان کے طلبہ کا رول نمبر سیٹ کرنا اور اس کا لکھنا میرے ذمہ ہوتا۔ اپنے کمرے میں گودریج کی الماری میں کاغذات کی حفاظت میری ہوتی اس کی چابی میرے پاس ہوتی یا اپنے میز کے دراز میں رکھتے مگر مجھے بتادیا کرتے۔ بازار جانا ہوتا تو عموماً مجھے ہی ساتھ لے جاتے کبھی کبھی میرے کمرے میں آیا کرتے اور اپنی نصیحتوں سے نوازتے تھے۔
ایک روز ترمذی کے درس میں پہنچے میں نے سوچا کوئی کام ہے لیکن خود میرے پاس بیٹھ گئے اور فرمایا تم درس جاری رکھو۔ تقریباً گھنٹی کے اختتام تک بیٹھے رہے۔ وہ اپنے آفس میں آکر بیٹھے تو میں بھی درس ختم کرکے ان کے پاس آیا میں نے پوچھا کہ درس کے سلسلے میں کچھ نصیحت فرمائیے اگر کچھ خامی ہوتو اس کی طرف رہنمائی فرمائیے تاکہ میں اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کروں۔آپ نے جوابا دعا فرمائی، میری ہمت افزائی کی اور کہا کہ تم ماشاء اللہ بہت اچھے چل رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ مزید ترقی اور علم میں اضافہ فرمائیے۔ البتہ ایک بات میری طرف سے ہے کہ تم درس عربی میں پڑھایاکرو۔ دوسرے دن سے میں نے عربی میں درس دینا شروع کردیا اور تقریباً ہفتہ عشرہ تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن تفہیم میں وقت زیادہ لگ جاتا کیوں کہ نصف سے زیادہ طلبہ یہ کہتے کہ عربی زبان میں پورے طور پر بات سمجھ میں نہیں آتی پھر سے اردو میں بتادیجیے۔ میں ان کی رعایت میں دوبارہ اردو میں سمجھاتا اس طرح دوگنا وقت لگ جاتا اور سبق کم ہوتا۔ اس لیے پھر میں نے اردو میں پڑھانا شروع کردیا۔
شیخ الجامعہ ہمارے گائوں دو مرتبہ تشریف لائے۔ ایک مرتبہ میرے گھر آئے اور رات بھر ٹھہرے۔ آگے اسفار میں اس کا ذکر آئے گا۔ اور دوسری بار مدرسہ تک آئے تھے جب شعبۂ نسواں کی عمارت کا ناظم صاحب نے سنگ بنیاد رکھا تھا۔ پھر اٹوا جلسہ میں چلے گئے۔ بعد میں اٹوا جلسہ میں بھی گیا اور والد صاحب بھی گئے۔
اللہ کا کرم او راحسان ہے کہ مولانا اس طویل مدت میں آخر وقت تک مجھ پر مہربان رہے آپ کی عنایتیں اور نوازشیں مجھ پر رہیں آپ کی نظر کرم میں کبھی ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین یا رب العالمین۔وفات دسمبر ۱۹۹۶؁ء میں ہوئی۔
(۴) استادمکرم جناب ڈاکٹر علامہ مقتدیٰ حسن ازہری:- عربی اردوفارسی کے ادیب، عربی صحافت کی خدمت کے صلہ میں صدر جمہوریہ ایوارڈ حاصل کرنے والے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا اعلیٰ رتبہ عطا فرمایا تھا۔ شعبۂ نشرواشاعت اور افتا کے مدیر، صوت الامۃ (صوت الجامعہ عربی) کے تاسیسی ایڈیٹر، جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) کے وکیل (ریکٹر) کئی تنظیموں اور علمی اداروں کے رکن، رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے ممبر خصوصی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت ساری خوبیاں عطا فرمائی تھیں ۔ آپ کے الطاف کریمانہ کا میں کس طرح اور کہاں تک ذکرکروں زبان وقلم کچھ ان کے بارے میں بیان کرنے کے لیے ساتھ نہیں دیتے بس اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جواررحمت میں جگہ دے۔ آمین
ڈاکٹرازہری صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ ہر شخص کے خط کا جواب ضرور دیتے تھے اس بارے میں ان کے یہاں عظیم وکبیر اور کمترین وکمتر کی کوئی تفریق نہیں تھی، عالم وجاہل، ساتھی اور شاگرد، متعارف وشناسا یا غیرمتعارف اور غیرشناسا کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ طالب علمی کی زندگی کے بعد جب میں تدریسی لائن میں آیا تو ان سے میری خط وکتابت جاری تھی۔ اس وقت آپ علی گڑھ میں ’’ایم فل اور پی، ایچ ، ڈی کے کورس کی تکمیل کے لیے مقیم تھے۔ اس وقت بھی آپ خطوط کا جواب ضرور دیتے اور جو مشورہ طلب کیاجاتا اس کے بارے میں اچھی رائے دیتے۔ ہم لوگ سعودیہ میں تھے اس وقت بھی ان سے مراسلت جاری تھی۔
جامعہ سلفیہ میں ستمبر ۱۹۷۸ء؁ میں مدرس کی حیثیت سے تقرری ہوئی تو آپ نے مجھ خاکسار پر اتنا اعتماد کیا کہ بیرون ہند سفر کے وقت اپنی کتابیں مجھے دے گئے تاکہ درس جاری رہے۔ جب میں پڑھانے کے لیے گیا تو طلبہ نے ازسرنو کتاب شروع سے پڑھی۔ ممکن ہے ان کا مقصد امتحان لینے کا رہا ہو اور پھر ہرسال جب تک بیرون ہند کا سفررہاہمیشہ مجھے ہی اپنی درسی کتابیں دے جاتے، اور پھر پورے سال مجھے پڑھانا پڑتا۔ امتحان بھی میں ہی لیتا ۔ کاپیاں بھی میں ہی جانچتا۔ اس لیے میری گھنٹیاں ہمیشہ تین ہی رکھتے پھر جب سفر بند ہوا تو بھی اپنی پڑھائی ہوئی کتابوں کی کاپیاں بعض عوارضات کی وجہ سے مجھے جانچنے کے لیے دیتے۔ کتاب اور مادہ جو بھی ہو۔ اگر بازار سے کوئی چیز منگانی ہوتی تو خود نہ جاتے مجھ سے منگواتے۔ یا اگر خود ہی جانا ضروری ہوتا تو مجھے اپنے ساتھ لے جاتے۔ کئی بار سفر میں ’’مئو‘‘ دہلی، مالیگائوں، علی گڑھ(۲؍بار) مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔میرے ساتھ ان کا برتائو بالکل پدروپسر کا تھا اسی لیے میرے بچے ان کو بابا (ہمارے یہاں دادا کو بابا کہاجاتاہے) اور سلمان کی والدہ ان کی اہلیہ کو میںاماں کہتا او ربچے دادی کہتے تھے ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا بالکل اپنوں کی طرح رہا۔
انہوںنے مجھے لکھنا سکھایا، کسی سے کام کروانے کا ڈھنگ انہیں بہت اچھا معلوم تھا پہلے فرماتے اس موضوع پر کچھ کتابیں دیکھ کر مجھے بتائو اس مسئلہ میں کسی کی رائے کیاہے؟ پھر کہتے یہ معلومات نوٹ کرلو۔ اس کے بعد فرماتے اس کو مرتب کرڈالو، اسے چھاپ دیا جائے۔ اشاعت کتب کے لیے آپ بالکل خود مختار تھے اسی طرح جن کتابوں پر معاوضہ دیتے اس کے لیے خودمختارہی سمجھ میں آتے تھے۔ ممکن ہے ناظم صاحب سے مشورہ کرتے ہوں اور یقینا کرتے رہے ہوں گے مگر صاحب معاملہ کو کچھ بھی نہ کرنا پڑتا تھا۔ اسے اس معاوضہ کے لیے دس آدمیوں کا دربار نہیں دیکھنا پڑتا اور نہ دردربھٹکنا پڑتاتھا۔ اسی لیے جامعہ کے پریس اور اشاعتی ادارہ سے کئی سوکتابیں شائع ہوئیں اور ہرکتاب میں اس کی زبان کے مطابق عربی میں یا اردو میں ڈاکٹر صاحب کے قلم کا لکھا ہوا عرض ناشر مختصر مگر جامع ضرور ہوتا۔ اسی لیے جب سیرۃ البخاری (عربی) میری تعلیق وتصحیح سے شائع ہوئی تو جو نسخے مجھ کو ملے تھے اس میں انتساب میں نے اپنے قلم سے اس طرح لکھا:
’’إلی أبوی وإلی أقربائی الذین إجلسونی فی المکتب حینما کنت ابن عامین حرصاً للعلم، وإلیٰ فضیلۃ الوالد الدکتور مقتدی حسن الأزہری الذی أعطانی القلم وأخذ بیدی وقال لی: أکتب‘‘
سیرۃ البخاری (عربی) میں جو کام تحقیق، تصحیح وتعلیق کا میں نے کیا اس میں کسی مصلحت کی بنا پر میرا نام نہیں ڈالاگیا۔میری تعلیق بہت مختصر رکھی گئی البتہ میری تعلیق ذکر ہونے کے بعد بریکٹ میں ’’مراجع‘‘ لکھا ہواہے۔ یہ کتاب جامعہ کے پریس سے چھپی، مولانا مختار احمد ندوی نے اس کا پورا ایڈیشن خریدلیا بہت جلدی وہ ایڈیشن ختم ہوگیا۔ تو مولانا نے اسے کمپوٹرائز کرایا اس کی پروف ریڈنگ کے لیے میرے پاس بھیجا تصحیح کے بعد اس کے کئی ایڈیشن چھاپے او رہر ایڈیشن ختم ہوتاگیا۔ بڑی قابل قدر کتاب ہے وہ اب تک اما م بخاری کی سیرت اور ان کی جامع کی خصوصیات ومزایا کے سلسلہ میں ا س پایہ کی کوئی دوسری کتاب نہیں دیکھنے کو ملی۔ پھر اس کے عربی مترجم مولانا ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعظیم بستوی نے ازسرنو اس کی تحقیق وتعلیق کی اور اس کو دوجلد کرکے اپنی طرف سے چھپوایامگر میرا تحشیہ ’’مراجع‘‘ کے نام سے باقی رکھا اللہ تعالیٰ ان کو صحت وعافیت سے رکھے اور ان کی خدمات کا صلہ اجر جزیل کی شکل میں عنایت فرمائے۔ آمین(مقدمہ مترجم میں میرا ذکر بڑے اچھے انداز سے کیا ہے، اب وہ بھی مرحوم ہو چکے ہیں۔
(غفراللہ لہ ویرحمہ ویدخلہ الجنۃ جنۃ الفردوس)
سیرۃ البخاری کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ازہری صاحب سعودیہ سے چھاپنے کے لیے مانگ کر لائے تھے ڈاکٹر عبد العلیم عبد العظیم بستوی نے یہ فرمایا تھا کہ میرا نام بحیثیت مترجم سرورق پر نہ رکھا جائے اسی لیے یہاں کے ایڈیشن میں ا ن کا نام نہیں دیاگیا اور شروع میں ازہری صاحب نے اس کے ۴؍۵ حصہ کرکے کئی مدرسین کو تحقیق وتعلیق کے لیے دیاتھا۔ میں اس وقت ’’تدریسی خدمات‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تسوید تبییض میں لگاہواتھا مگر تقریباً چھ مہینے گذرنے کے باوجود لوگوں نے کچھ نہ کیا تو ڈاکٹر ازہری صاحب نے ان حضرات سے واپس لیکر مجھے دے دیا۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ میںان کے اعتماد پر پورا اترا۔
ڈاکٹر ازہری صاحب کی نوازش تھی کہ پندرہ دن پر اپنے گھر سے کھانا پکواکرلاتے اور مدرسین کے ساتھ بیٹھ کر میرے کمرے میں کھاتے اس کھانے میں مولانا محمدعابدرحمانی صاحب ، مولانا عزیزاحمدندوی، ماسٹرابوالکلام، مولانا عبدالوہاب حجازی اور مولانا محمدرئیس ندوی شریک ہوتے۔ عموماً انہی کے گھر کا کھانا سب کے لیے کفایت کرجاتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب دارالضیافہ کے ایک فلیٹ کے دوکمروں میں مولانا محمدمستقیم سلفی اور میں (عزیزالرحمٰن سلفی) رہتے تھے ۔ کبھی کبھی سارے اساتذہ کو اکٹھا کرکے جشن کرتے۔ کھانا بنانے کی ساری ذمہ داری ڈاکٹر صاحب کی ہوتی۔ ہم دونوں گھروں کے تعلقات اتنے اچھے تھے کہ ام سلمان مجھے اپنا بڑا بیٹا کہتیں، زہرہ بتول (مرحومہ) مجھے بھیا کہتیں اگر دوا کی ضرورت ہوتی تو پہلے مجھے بلاکر مشورہ کیا جاتا۔ آخری مرض میں بلابلاکر مجھ سے علاج کے سلسلے میں مشورہ کیا مگر اب کی بار معلوم نہیں کیوں میں نے کوئی دوا ان کے لیے نہیں لکھی اور نہ لاکر دی۔اتنی طویل مدت (تقریباً تیس اکتیس سال) گذرنے کے باوجود گھر میں کچھ پکوان ہوتا تو میرے پاس ضرور بھجواتے۔ سیخ کباب بناتے وقت میرے مزاج کا اس طرح خیال رکھا جاتا کہ میرے حصہ میں کھیری نہ جائے کیوں کہ کھیری مجھے طبعاً پسند نہیں ہے۔ وہ سب بہترین زمانے گذرگئے۔ اب تو تلچھٹ بھی باقی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے سارے گھروالوں کو جو زندہ ہیں صحت وعافیت سے رکھے اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے او رفضیلۃ الوالد ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کو اعلیٰ علیین اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کی ساری خطائوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔آپ کی وفات ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء؁ بروز جمعہ سوا پانچ بجے صبح دہلی سے آبائی وطن جاتے ہوئے کانپور میں ہوئی۔
ونقہ من الخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللّٰہم اغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد اللّٰہم أدخلہ الجنۃ جنۃ الفردوس۔
ڈاکٹرازہری صاحب جامعہ سلفیہ کی علمی زندگی تھے اس کا ارتقاء انہی کے مرہون منت ہے۔ زمانہ ماضی قریب میں جو ناہموار قسم کے ذمہ دار آئے انہوںنے ان کی علمی خدمات پر پابندی لگادی ان کی عزت وعظمت تارتار کردی جس کے نتیجہ میں یہاں کا علمی کام رک گیا بلکہ بند ہوگیا۔ پھر بھی وہ خوش ہے کہ ہم جامعہ بہت اچھا چلارہے ہیں جو لوگ یہاں تھے کتنے عظیم علمی کارنامے انجام دے گئے۔ ان سب کو بے شعور اورجاہل تصور کرتا اپنی بے علمی کو پختہ علم اور اپنی عقل کو عقل تام سمجھ رہاہے۔ بغیر کسی عمل اور علم کے تعریف حاصل کرنے کا شوق ہے۔ اپنے ماسوا کو جاہل اور گنوار بے وقوف اور نادان سمجھتا ہے۔ جامعہ سلفیہ کا جو علمی اختصاص تھا جس کی بناء پر جامعہ چار دانگ عالم میں خصوصاً برصغیر پاک وہند وبنگلہ دیش اور عرب خلیجی ممالک میں مشہور تھا وہ ساری شہرت اور اختصاص زمانہ ماضی کی چیز بن کر رہ گئی۔ اللہ تعالیٰ مادرعلمی جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم کو قائم ودائم رکھے۔ اور پھر کوئی ایسا وسیلہ اور ذریعہ فراہم کرے جس کی وجہ سے یہ بام عروج اور اوج ثریا کوپہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے تاکہ ہماری آنکھیں اسے عروج اور ترقی پر دیکھ کر ٹھنڈک حاصل کریں اور اکابرین کی روحیں خوش ومسرور ہوں ۔آمین
(۵) مولانا عظیم اللہ صاحب مئوی:- آپ سے بخاری جلد اول پڑھی، ان کے پڑھانے کا انداز بہت نرالا تھا، جب کوئی طالب علم کچھ سوال کرتا تو مسکرا کر اس کے قریب ہو جاتے۔ ہر دم مسکرا کر بات کرتے۔ کسی وجہ سے بنارس کی فضا ان کو راس نہ آئی تو وہاں سے چلے آئے۔ کچھ دن بونڈھار مدرسہ میں پڑھایا۔ ۱۹۷۷ء؁ میں میرے مسلم جلد ثانی کے درس میں شریک ہوئے تھے اور میری بڑی ہمت افزائی فرمائی۔ بہت پہلے مرحوم ہو چکے ہیں۔ ونقہ من الخطایا کماینقی الثوب الأبیض من الدنس اللّٰہم أغسل خطایاہ بالماء والثلج والبرد اللّٰہم أدخلہ الجنۃ جنۃ الفردوس۔
(۶) مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی:- آپ سے ہدایہ اور ابو دائود شریف پڑھی، بڑی تفصیل سے سمجھاتے تھے۔ اور امتحانی جوابات میں بھی تفصیل طلب کرتے تھے، فربہ بدن تھے، صاحب طرز ادیب تھے۔ الہدی (دربھنگہ) کے ایڈیٹر رہ چکے تھے ان کا کام بیشتر تحریر کا ہوتا تھا۔ اور جس موقع سے جو تحریر لکھ دیتے وہ سب کو خصوصا ناظم صاحب مرحوم اور منتظمین کو مکمل طور پر پسند آتی ، اخیر زندگی تک اردو تحریر کا کام آپ ہی کرتے تھے۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی کے فارغ تھے، مولانا نذیر احمد املوی رحمہ اللہ علیہ کے معتمد شاگرد تھے اسی لیے اپنی بعض کتابیں بھی ان کے نام سے طبع کرائی تھیں ، آپ خود اتلور کے تھے جو مبارکپور کے قریب ہے۔
اس سے قبل یہ گزر چکا ہے کہ ۱۹۷۶ء؁ میں بونڈھار کے جلسہ میں شریک ہوئے۔ سوچا صبح کو ملاقات کروں گا۔ لیکن افسوس قسمت نے یہ بات پوری نہ ہونے دی۔ میرے جامعہ جانے سے کچھ ماہ پیشتر ۱۹۷۸ء؁ میں انتقال ہوگیا۔ إن للہ وإنا إلیہ راجعون۔ أللّٰھم أغفر لہ وأرحمہ وعافہ۔
(۷) مولانا شمس الحق سلفی: آپ پہلے فیض عام کے شیخ الحدیث تھے، جامعہ آئے تو ہم لوگوں کو بخاری جلد ثانی پڑھائی۔ پہلوان آدمی تھے۔ بڑے شعلہ بیان مقرر تھے۔ اسی لیے شاید جامعہ سلفیہ کے ذمہ داروں نے آخر میں ان کو تبلیغ پر لگا دیا تھا۔ آپ کے بیٹے بہت ذہین ہیں، خاص طور پر مولانا عزیر شمس سعودیہ کے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد تصنیف وتعلیق وتحقیق ہی میں لگے ہیں۔ حافظہ اتنا اچھا ہے کہ ہزاروں اسماء رجال مع سنین ان کے حافظہ میں موجود ہیں۔ انہیں کتاب دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مولانا شمس الحق سلفی مرحوم ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔
;اللھم أغفر لہ وأرحمہ وعافہ۔
مذکورہ بالا اساتذہ کے علاوہ میرے اساتذہ میں صالح العراقی، ربیع ہادی مدخلی، ہادی الطائبی، ماسٹر عبد الحمید جونپوری ، ماسٹر حمید اللہ جون پوری، انگلش ٹیچر ماسٹر شمس الدین بنارسی قابل ذکر ہیں۔ اور گائوں کے مدرسہ میں مجھے میرے ماموں مولانا شکر اللہ فیضی ، مولانا عبد اللہ سعیدی جمنوی اور مولانا محمد اثری ہیں۔ ان لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت خداداد تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

Related posts

رفقائے درس

Paigam Madre Watan

تاثر برخود نوشت رشحات قلم

Paigam Madre Watan

تعلیم وتعلم اور اساتذہ کرام

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar