Parwaz پرواز

محترم شیخ اسعد اعظمی مدنی ’جامعہ سلفیہ بنارس‘سے

ماخوذ:شعری مجموعہ پرواز(تاثرات)

تخلیق: مولانا عزیز الرحمن سلفی (سابق استاد جامعہ سلفیہ بنارس


زیر نظر شعری مجموعہ جامعہ سلفیہ(مرکزی دار العلوم ) بنارس کے معروف وکہنہ مشق استاذ مولانا عزیز الرحمن صاحب سلفی کی فکری کاوشوں کا ثمرہ ہے، موصوف جامعہ سلفیہ سے فارغ ہونیوالے فضلاء کے پہلے مجموعہ کے ممتاز افراد میں سے شمار کیے جاتے ہیں، فراغت کے بعد مختلف دینی مدارس میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد ۱۹۷۸؁ء میں جامعہ میں مدرس مقرر ہوئے، اس طرح آپ میدان عمل میں چوتھی دہائی مکمل کرنے جا رہے ہیں، آپ ایک ماہر مدرس ہونے کے ساتھ متعدد دینی، تاریخی اور لسانی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، اس کے علاوہ مختلف رسائل وجرائد میں آپ کے مضامین ومقالات بھی گاہے گاہے شائع ہوتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان وقلم میں توانائی اور پختگی عطا کی ہے اور آپ حتی المقدور ان دونوں وسائل کو مفید وبا مقصد کاموں میں استعمال کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
ان تدریسی وغیر تدریسی مشاغل کے ہجوم سے کچھ وقت نکال کر شعر وشاعری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں، موصوف کی صراحت کے مطابق ان کا پہلا منظوم کلام ۱۹۷۰؁ء میں تخلیق پایا، اس طرح آپ کا یہ ادبی سفر بھی چوتھی دہائی کی تکمیل کر رہا ہے، اس طویل عرصہ میں مختلف موضوعات پر اپنے قلب وذہن پر وارد افکار وخیالات کو الفاظ وتراکیب کا جو شعری جامہ پہنایا ہے زیر نظر مجموعہ اسی کا ایک انتخاب ہے، اس مجموعہ میں بشمول رباعیات کل(۸۷) نظمیں ہیں، جنہیں تین مجموعوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا مجموعہ حمد ونعت سے متعلقہ نظموں پر مشتمل ہے جس میں الگ الگ عناوین سے کل (۲۸) نظمیں شامل ہیں، ان میں نعت پر صرف دو نظمیں ہیں، ایک دعائیہ نظم بعنوان’’ آرزو‘‘ خواتین کے لیے ہے، دو نظمیں’’ زیارت حرمین سے واپسی کے بعد‘‘ کی لکھی ہیں، اور ایک نظم بیت اللہ شریف کے زائرین کے ترانہ کے طور پر ہے، بقیہ کا تعلق براہ راست حمد باری تعالیٰ سے ہے۔
دوسرا مجموعہ ’’منظومات ‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں کل (۳۶) نظمیں شامل ہیں، اس حصہ میں متفرق موضوعات پر نظموں کا قابل قدر ذخیرہ ہے، جس میں مشہور اسلامی شخصیتوں (مولانا عبد القدوس(ٹکریا) مولانا عبد المعید بنارسی، شاہ فیصل، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری، شاہ فہد، رحمہ اللہ ) کی وفات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد چند دینی اداروں (جامعہ رحمانیہ، بنات، بنارس، مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں، مدرسہ مفتاح العلوم ٹکریا) کے ترانے ہیں، علاوہ ازیں چند دیگر موضوعات پر نظمیں ہیں، جیسے: اردو زبان، بنارس کا فساد، جشن بخاری ،اقرباء واحباب کی شادیوں سے متعلق نظمیں، مختلف دینی جلسوں کے لیے استقبالیہ نظمیں، اسی طرح دو نظمیں شب برات پر اور ایک دورِحاضر پر ہے، اسی حصہ میں دیوالی اور ہولی پر بھی دوتین نظمیں ہیں جو اس گراں قدر شعری مجموعے کی شبیہ کو نقصان پہنچارہی ہیں۔
تیسرا اور آخری مجموعہ ’’غزلیات‘‘ کا ہے، اس حصہ میں کل (۲۳) نظمیں شامل ہیں، اس حصہ کی پہلی نظم’’ چمن میں لے کے میں رنگ بہار آیا ہوں‘‘ سے معنون ہے جو اسی حصہ کی نظم کے اشعار کا ایک مصرعہ ہے ۔ مذکورہ عنوان کے نیچے مرتب نے بین القوسین یہ وضاحت فرامائی ہے (منظوم کلام کی اولین کوشش جو ۲۹؍اگست ۱۹۷۰؁ء کو منضۂ شہود پر آئی)۔
اسی طرح ہر نظم کے عنوان کے ساتھ ہی اس کی تخلیق کی تاریخ درج ہے، اس اندراج کی اہمیت اس اعتبار سے اور بڑھ جاتی ہے کہ اس سے شاعر کی فنی وفکری ارتقاء کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسی اندراج پر نظر دوڑانے کے بعد ہمیں یہ اطمینان حاصل ہوا کہ شاعر نے ربع صدی قبل ہی صنف غزل کو الوداع کہہ دیا ہے، ارباب علم وفضل کے وقت او ر ذمہ داریوں میں اس صنف کے لیے گنجائش نہیں ملتی۔
پورے مجموعے پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ ومعانی پر شاعر کی گرفت مضبوط ہے۔ ساتھ ہی مختلف اصناف سخن پر انہیں قدرت حاصل ہے، عالم دین ہونے کے ناطے آپ کی شاعری الحاد اور فسق وفجور کے اثرات سے پاک ہے، اور بڑی حد تک اسلامی افکار واقدار کی ترجمان ہے۔ شاعر نے متعدد نظموں میں ماحول اور معاشرے کے مسائل کو بھی چھیڑا ہے۔ فکری اور اخلاقی فساد پر اپنے کرب والم کا اظہار کیا ہے اور اصلاح وتصحیح کی دعوت دی ہے۔ اس سے مقصد کی بلندی اور فن کو مثبت اور مفید مقاصد کے لیے استعمال کے قابل قدر جذبہ کا پتہ چلتا ہے، زیر نظر مجموعہ کے اشعار کی فنی اور معنوی خوبیوں کا اندازہ لگانے کے لیے بطور نمونہ درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
’’ اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ کے عنوان سے موجود نظم کے ابتدائی اشعار اس طرح ہیں:
تعریف اس کی، جس نے بنایا
جس نے زمیں پر، انساں بسایا
کھیتوں میں جس نے، غلہ اگایا
چڑیوں کو جس نے، اڑنا سکھایا
ہم اس کے بندے، وہ رب اکبر
اللہ اکبر اللہ اکبر
توحید کی حفاظت اور عقیدہ وعمل کے بگاڑکے بعض اسباب کا بیان شاعر نے کتنے مؤثر پیرایہ میں کیا ہے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
رب کونین کے آگے میں سدا جھکتاہوں

تعزیہ، قبر پہ میںکرتا نہیں سجدہ نیاز
ٹھیک ہے جسم ہمارا ہے نحیف ولاغر

ناروا مالوں سے ہم کرتے نہیں جسم گداز
پیٹ کے واسطے قبروں پہ جبیں ٹیکی ہے

خوب معلوم ہے اے دوست ترے قلب کا راز
مولانا عبد المعید بنارسی رحمہ اللہ، سابق استاذ جامعہ سلفیہ کی وفات پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اور موصوف کی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے کہا ہے:
کیا بلاغت ہے؟ اور کیا اعجاز کی تفسیر ہے؟

نکتۂ رازی ہے کیا؟ قاضی کی کیا تعبیر ہے؟
کون رخ الٹا ہے؟ کیا سیدھی صحیح تصویر ہے؟

درجۂ جامع ہے کیا؟حافظ کی کیا تحریر ہے؟
پیش فرمائے گا اشیاء کی صحیح تاریخ کون؟
کون ہیں زہرہ عطارد، مشتری، مریخ کون؟
شب برات کے موقع پر بیشتر مسلم علاقوں میں ایک دو روز کے لیے قبرستان اور قبروں کی جس طرح آرائش کی جاتی ہے اس کی طرف شاعر نے طنزیہ انداز میں اس طرح اشارہ کیا ہے:
سال بھر تک کوئی بھی ان کا نہ تھا پرسانِ حال
آج یہ مردے تو زندوں سے چہیتے ہو گئے
بھول کر گور غریباں پہ نہ اٹھتی تھی نظر
آج زندوں کے یہ سب میدان میلے ہو گئے
اشعار کے یہ نمونے شاعر کی فکر ی بصیرت اور فنی مہارت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں، مجموعی طور پر یہ مجموعہ قارئین کے لیے ایک گرانقدر تحفہ ہے تو اردو شاعری میں لائق احترام اضافہ بھی۔ امید کہ مشق سخن کا یہ با مقصد سلسلہ شاعر ممدوح جاری رکھیں گے اور ادبی حلقوں میں آپ کا نام مزید روشن ہوگا۔ واللہ ولی التوفیق۔

اسعد اعظمی
مدیر صوت الأمۃ ( عربی)
و مدیر ادارۃ البحوث الاسلامیہ
۱۴؍ذی الحجہ ۱۴۳۰؁ھ

Related posts

‘اٹھّی جو گھٹاکالی کالی’

Paigam Madre Watan

رباعی

Paigam Madre Watan

محترمہ ڈاکٹر نفیس بانو صاحبہ ’پرواز‘ پر ایک طائرانہ نظر

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar