(تنویر پٹیل برمنگھم میں ایک سیریل ٹیک انٹرپرینیور ہے۔ وہ ConcertCare LLC کی شریک بانی اور سابق سی ای او ہیں، جو ایک سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کمپنی ہے جو انٹرپرائز ایپلیکیشن ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل تبدیلی اور انضمام فراہم کرنے کے لیے صارفین کے ساتھ شراکت میں مہارت رکھتی ہے۔ ConcertCare حال ہی میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کنکشن کے ساتھ ضم ہوگیا اور اب Concert IDC ہے، جہاں پٹیل بورڈ کے رکن ہیں۔ وہ 19 سال کی عمر میں امریکہ ہجرت کر گئیں۔کارپوریٹ دنیا میں کام کرنے کے بعد، اس نے برمنگھم سافٹ ویئر کمپنی سرکل سورس سمیت کئی کمپنیاں شروع کیں اور فروخت کیں۔ 2015 میں اسٹارٹ آپ بزنس جرنل نے پٹیل کو ملک کے 100 بااثر مفکرین میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا۔گزشتہ دنوں وہ اپنے شوہر ڈاکٹر مقبول پٹیل کے ہمراہ اورنگ آباد تشریف لائی تھیں،شہر کے تعلیمی اداروں کا دورہ کیا ریڈ اینڈ لیڈ فاؤنڈیشن کے صدر مرزا عبدالقیوم ندوی نے اس وقت ان سے تفصیلی ملاقات کی اور ان کا ایک مختصر انٹرویو کیا..)*
محترمہ! آداب عرض ہے
سوال: محترمہ! میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ ملاقات کے لیے وقت عنایت فرمایا۔
رسمی تمہید سے گریز کرتے ہوئے آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں بتائیں کہ آج آپ کیا محسوس کرتی ہیں؟
جواب:جب میں اپنے سفر کے بارے میں سوچتی ہوں، مجھے یاد آتا ہے میری زندگی میں کیسے کیسے بدلاؤ اور چیلنجز آئے ہیں۔
آجی سے شروع ہو کر نمکین بنانے تک میرا سفر کچھ کم مشکل نہیں تھا۔
سوال:کچھ امریکہ کے سفر کی ابتدائی یادیں؟
جواب: میں بھارت کے بنگلورو میں پیدا ہوئی اور بڑی ہوئی۔ میری عمر 19 سال تھی جب میرے لیے شادی کا رشتہ آیا اور میں بھارت چھوڑ کر امریکہ چلی گئی۔ایک نیا دیش، نیا کلچر اور انجان ملک ، بغیر ماں باپ کے گھر سے دور ۔ اس وقت شوسل میڈیا نہیں تھا،
والدین سےصرف ماہ میں ایک بار 5 منٹ کی
بات ہوتی تھی.
الحمدللہ، میری کہانی صبر اور خود اعتمادی سے معمور ہے۔ مجھے پتہ تھا کے میری زندگی میرے شوہر کے ساتھ ہے، جسے اللہ نے میرے لیے چنا ہے، اور مجھے ایک نئے دیش میں ایک نئی زندگی اور اپنا مقام بنانا ہے۔
جب میری عمر 21 سال تھی، تب میں نے اپنے بڑے بیٹے کو جنم دیا۔ میرے شوہر نے مزید پڑھنے کی صلاح دی۔ مجھے کمپیوٹر سکھایا۔ آج مجھے فخر ہے کہ میں اپنے شوہر کی ایک اچھی شاگرد ثابت ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں شروع ہی سے محنتی اور کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا جنون رکھتی ہوں. نئی جگہ بھی کچھ نیا کرنے کا شوق طاری رہا۔
شروع شروع میں ہماری کسی سے پہچان نہیں تھی، ہمیں کوئی نہیں جانتا تھا. صرف میں ،میرے شوہر اور ہمارا بچہ ، ان تین نفوس پر مشتمل خاندان تھا ۔ہمارا رشتہ ہمارے محلے کی مسجد سے شروع ہوا اور ہم نے دوست بنائے۔
سوال: گزر اوقات کے اس وقت کیا ذرائع تھے؟
جواب : میں نے کئی کمپنیوں میں کام کیاہے۔ چونکہ میرا تعلق کاروباری خاندان سے سے ہے جہاں ہمیشہ یہ سوچاجاتا تھا کہ اپنا خود کا کاروبار ہونا چاہیے ۔ کام کرنے والے نہیں بلکہ کام دینےوالے بنیں۔ اسی لیے شروع ہی سے میری یہ کوشش تھی کہ میں اپنا خود کا کاروبار شروع کروں۔
سوال: پھر بھارت واپسی کیسے ہوئی؟
جواب : میرے والد کا انتقال ہوا تو میں بھارت لوٹ آئی۔ میں انکا بزنس سنبھالنا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ میری جگہ رسوئی میں ہے۔
مجھے بڑا دکھ تو ہوا لیکن ٹھان لیا کہ میں ایک بزنس چلاؤں گی۔ میرے شوہر نے مجھے سپورٹ کیا اور میں نے اپنی ٹیکنالوجی کمپنی شروع کی۔
سوال: آپ کو اپنے عزائم کی تکمیل میں کس کس کا تعاون حاصل رہا؟
جواب : سب سے پہلے میں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے کامیابی حاصل ہو۔پھر ارکان خاندان کا ساتھ مانگا ۔ باہر سے میں نے کچھ مشیروں کو چُنا، ایک امریکی خاتون سوزن
میٹلاک نے مجھے بتایا کہ مردانہ غلبہ والے ٹیکنالوجی انڈسٹری میں کیسے کاروبار کیا جاسکتا ہے۔
سوال: شروعات اور درپیش مشکلات پر کچھ روشنی ڈال سکتی ہیں؟
جواب: شروعات میں، میں نے اپنی کاروباری منزل پانے کے لیے بہت محنت کی۔ ہر نئے پراجیکٹ کے ساتھ، مشکلات اور مسائل آتے ہیں، لیکن میں نے کبھی ہار نہیں مانی اور ہر مشکل کو ایک موقعہ سمجھا ۔
ہر قدم ایک نئی تلاش لیکر آتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہر ناکامی ، ہر رکاوٹ ، ایک نیا سبق سکھاتی جاتی ہے۔ یہ سبق مجھے اور بھی مضبوط بناتا رہا، اور مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا رہا۔ تجربات کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی پختہ ہوتا گیا کہ ہم سب مل کر اپنے کاروباری سپنوں
کو حقیقت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آگے بڑھتے رہیں، نئے چیلنجز کو مشکل نہیں، بلکہ ایک نیا موقعہ سمجھ کر دیکھتے رہیں۔ ہر کامیابی کا راستہ مشکل ہوتا ہے،لیکن جو محنت کرتا ہے اور کبھی بھی ہار نہیں مانتا،وہی حقیقت میں کامیاب ہوتا ہے۔
سوال:نئی نسل کے لیے آپ کیا پیغام دیتی ہیں ؟
جواب : جب میں، جو امریکہ میں پیدا نہیں ہوئی ہندوستانی لہجے کے ساتھ اور کسی ڈگری کے بغیر ایک نئے دیش میں ایک کامیاب کاروبار چلا سکتی ہوں،