Parwaz پرواز

لفظے چند

تخلیق: مولانا عزیزالرحمن سلفی

ماخوذ: شعری مجموعہ پرواز

بسم اللہ الرحمن الرحیم


الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الأ نبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ وذریاتہ اجمعین ومن تبعھم باحسان الیٰ یوم الدین۔ أما بعد:
ساری تعریف اس ذات واحد کے لئے ہے جو تمام کائنات کا خالق، مالک، رازق، مربی اور قادروقدیر ہے۔ وہی سب کا معبود ومسجود برحق اور سب کا حاکم اعلیٰ ہے، اس نے ہمیں زندگی بخشی اور ہمارے لئے ساری نعمتیںاور آسائشیں مہیا کیں، اسی کے ہاتھ میں ہماری حیات وممات ہے، اسی نے ہم کو زبان بخشی، قوت گویائی عطا کی، مافی الضمیر کی ادائیگی اور اس کے تفہیم کا طریقہ سکھایا۔ قوت گویائی اور طریقۂ تفہیم کو ’’بیان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے لفظوں میں اسی کو گفتگو اور کلام کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
کلام کے دو طریقے ہیں(۱) نثری کلام یعنی جس میں موزونیت نہ ہو(۲) شعری یا نظمی کلام یعنی جس میں موزونیت ہو۔ کلام کے یہ دونوں طریقے روز اول سے انسان کو حاصل رہے ہیں، لیکن انسانوں کے کلام کی تاریخ ابتدا سے مدون نہ ہو سکی۔ بعد کے ادوار میں جب اس کے کلام کی تاریخ مدون ہوئی تو نثری کلام سے شعری یا نظمی کلام کی تاریخ قدیم تر معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ نثری کلام کا یاد رکھنا مشکل تھا۔ اس کے برخلاف شعری کلام چوں کہ تاثیر کا حامل ہوتا ہے، اس لئے اس کا یاد رکھنا سہل تر تھا۔ اس طرح حافظے سے حافظے میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتا رہا۔ اور لوگ اسے اس کے مفہوم کے اعتبار سے اپنی خوشی ومسرت کی تقریبات میں یا رنج وغم کے مواقع پر اپنی خوشی وغم کے اظہار کے لئے اسے گاتے رہے۔ دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں، تہذیب سے ناآشنا ، دورافتادہ پہاڑ کی وادیوں اور ترائیوں میں بھی رنج وغم اور مسرت وشادمانی کے اظہار کے یہ طریقے ہمیشہ سے مروج رہے ہیں اور آج بھی مروج ہیں۔ یہی ہر قوم، ہرزبان اور ہر علاقہ کی تاریخ ہے۔
ہماری اردو زبان میں بھی کلام کے یہ دونوں طریقے اس کی ابتدا ہی سے مروج رہے ہیں۔ یہاں بھی نثری ادب سے زیادہ شعری ادب کی قدامت کا پتہ چلتا ہے۔ اردو زبان نے بھی بڑے بڑے ادیب، دانشور اور شعراء پیدا کئے۔ تاریخ کی معتبر کتابیں ان کے تذکرے اور خدمات کے ذکر سے بھری پڑی ہیں اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا تا ہے۔
شعر کیا ہے؟ نظم کسے کہتے ہیں؟ موزون اور غیر موزون کلام کیا ہوتا ہے؟ اصناف ادب کیا ہیں؟ میں ان ساری معلومات سے نابلد اور تہی مایہ ہوں۔ پیدائش کے بعد ابھی دو سال کا سِن ہوا تھا کہ خاندان کے بزرگوں نے تعلیم دلانے کی شدید خواہش کے سبب گائوں کے مکتب پر بیٹھا دیا اور مسلسل سال بھر تک ان کا دستور رہا کہ صبح کو گود میں اٹھا کر لاتے اور مدرسہ پر بیٹھا کر چلے جاتے اور پھر دوپہر کی چھٹی کے وقت اٹھا کر گھر لے جاتے۔(یہ باتیں مجھے بالکل یاد نہیں ہیں مگر میرے خاندانی بزرگوں نے مجھ سے میرے ذی ہوش ہونے کے بعد بتائیں) اس طرح بڑی کم عمری میں ’’ابررحمت ‘‘کی دوسری کتاب میں نے شروع کرلی۔ انہی ایام میں ماموں صاحب (حضرت مولانا شکر اللہ فیضی رحمۃ اللہ علیہ) نے ۱۹۵۶؁ء میں مدرسہ مفتاح العلوم کے نام سے عربی مدرسہ قائم کیا ۔ اوپر پڑھنے کے شوق میں بغیر پرائمری درجات پاس کئے فارسی میں آگیااور فا رسی کے بعد عربی جماعتیں شروع ہو گئیں۔ آپ خود ہی تصور کریں کہ اس شخص کی علمی بساط کیا ہوگی جس نے پرائمری صرف درجۂ اول پڑھا ہو؟ اور اس کی اردو کس معیار کی ہوگی؟ بہر حال عربی درجات شروع ہونے کے بعد پانچویں جماعت تک مدرسہ مفتاح العلوم میں تعلیم حاصل کی۔ کچھ نہیں معلوم کیا پڑھا لکھا؟ ایک سال مدرسہ دارالحدیث مئو میں گزارا۔ پھر جامعہ سلفیہ میں تعلیم کا آغاز ہوا، داخلہ مل گیا اور یہاں بھی چار سالہ علمی سفر طے کر کے عالمیت اور التخصص فی الشریعۃ الاسامیۃ ( فضیلت) کا کورس پاس کرلیا۔ یہاں سے فراغت ۱۹۶۹؁ء میں ہوئی۔ فراغت کے بعد بنارس ہی میں رہ کر ایک سال میں منشی (الہ آباد بورڈ) اور ادیب ماہر (جامعہ اردو علیگڑھ) کا امتحان دے کر کامیابی حاصل کی۔ بعد میں ادیب کامل کا امتحان پاس کیا۔ انہی امتحانوں کی تیاری سے اردو ادب کے بارے میں کچھ شدبد پیدا ہوئی۔ الہ آباد بورڈ سے مولوی، عالم، فاضل دینیات اور فاضل ادب کے امتحانات بھی پاس کئے۔
کاغذات میں میرا سال پیدائش ۸؍مارچ ۱۹۴۹؁ء لکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مدرسہ دارالحدیث میں میرا داخلہ چھٹی جماعت (عربی) میں ہوا تھا۔ وہاں کے اساتذہ نے میری جماعت دیکھ کر تخمیناً یہ تاریخ لکھ دی تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جو لوگ مجھ سے چھ سات سال بڑے تھے ان کا سن پیدائش بھی یہی لکھا گیا ہے۔ اس سے اسی امکان کو زیادہ تقویت ملتی ہے کہ اساتذہ نے میرا سال درس دیکھ کر یہ ماہ وسال لکھ دیئے۔
میرے والد صاحب کے بیان کے مطابق میرا سال پیدائش ۱۹۵۲؁ء ہے۔ میری والدہ کا انتقال شاید جنوری ۱۹۵۶؁ء میں ہوا تھا۔ والد صاحب کے بیان کے مطابق والدہ کے انتقال کے وقت میر ی عمر چار سال ۲؍ماہ کچھ دن تھی۔ میری چھوٹی پھوپھی کی شادی ۱۹۵۶؁ء میں ہوئی ایک مرتبہ میرے پھوپھا مجھ سے کہنے لگے کہ ان کی شادی کے وقت میری عمر لگ بھگ چار سال تھی۔ میری موجودہ ممانی جو میرے ماموں صاحب کی پانچویں بیوی ہیں(پہلی چار میں سے دو کو طلاق دی تھی اور دو وفات پا چکی تھیں) اور ابھی ماشا ء اللہ با حیات ہیں مجھ سے بڑی محبت رکھتی ہیں۔ ان کے بقول ان کی شادی کے وقت میری عمر دو ڈھائی سال کی تھی۔ شاید ۱۹۵۴؁ء میں ان کی شادی ہوئی تھی ان سارے ذرائع سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کاغذات میں لکھی گئی میری عمر زیادہ لکھ دی گئی ہے۔ بہر حال اب تو اعتبار کاغذ ہی کا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ نے جتنی عمر دنیا میں جینے کی لکھ دی ہے اتنی ہی ملے گی۔ نہ کم نہ بیش۔ وہی زندگی اور موت کا مالک ہے۔
میری تعلیم وتربیت میںمیرے پورے خاندان کا ہاتھ ہے۔ دونوں چچا میرے ساتھ ہمیشہ محبت کا سلوک کرتے رہے۔ اور ہر چھوٹی بڑی ضرورت اور ضد پوری کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔دادا جان نے بھی میرے ساتھ پیار ومحبت کا برتائو کیا۔ ۱۹۶۷؁ء میں ان کا انتقال ہوا۔ والد صاحب نے میری تعلیم وتربیت کے لئے اپنی زندگی وقف کردی ۔ دادی جان نے میرے ساتھ ماں کا سلوک کیا۔ اور کبھی مجھے ماں کی ممتا کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ وہ ۱۹۸۶؁ء تک زندہ رہیں۔ میری چار بچیوں اور تین بچوں کو دیکھ کر اللہ کو پیاری ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب اقراباء اور بزرگوں کو دنیا وآخرت میں جزائے خیر سے نوازے اور وفات یافتگان کو اپنی جوار رحمت میںجگہ دے(آمین تقبل یا رب العالمین) میں اگر چہ اپنے والدین کی تنہا یادگار ہوں ۔ کوئی بہن نہ کوئی بھائی ۔ پیدا ضرور ہوئے جیسا کہ بزرگوں کی زبانی معلوم ہوا مگر وہ سب بچپن میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اب مجھے اللہ تعالیٰ نے پانچ بچیوں اور چار بچوں سے نوازا۔ ان میں سے چار بچیاںاپنے گھر والی بن کر صاحب اولاد ہیں اور دو بچوں کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ وہ بھی ما شاء اللہ صاحب اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو عمل خیر کی توفیق دے اور دونوں جہان کی بھلائیوں سے نوازے۔ آمین۔
مجھے یاد نہیں ہے کہ طالب علمی کے زمانہ میں کبھی میں نے کسی محفل ومجلس میں شعر پڑھا ہو۔ ہاں شعر سے دلچسپی ضرور تھی۔ کیوں کہ مجھے بہت سے اردو، فارسی اور عربی کے اشعار یاد تھے سبعہ معلقہ میں امر اء لقیس ، زھیر اور عمرو بن کلثوم کے معلقات کے بیشتر اشعار میرے حافظہ میں تھے جو آج تک میرے مدد گار ہیں۔ حالی،غالب، اخترشیرانی اور اقبال کی بہت سی نظمیں یاد تھیں لیکن کبھی کسی محفل میں اشعار پڑھے نہیں ۔ اس کی وجہ میری کم گوئی ، خاموش مزاجی اور شرمیلاپن تھا اور پورے زمانۂ طالب علمی میں نہ کبھی شعر کہنے کی کوشش کی اور نہ ہی کبھی اس طرح کا خیال دل میں آیا۔ ۱۹۶۹؁ء میں جامعہ سے فراغت کے بعد ۱۹۷۰؁ء میں منشی اور ادیب ماہر کا امتحان بنارس میں رہ کر دیا۔ اس سے فراغت کے بعد جامعہ کے مکتبۂ عامہ میں کتابوں کی فہرست سازی کے عمل پر لگا دیا گیا۔ اسی سال ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے شعر کہنے کا دل میں خیال پیدا ہوا۔
ہوا یہ کہ جامعہ سلفیہ کے طلبہ اور اساتذہ نیز رئیسان مدن پورہ پر مشتمل ایک جشن کا اہتمام جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید عبد الحق سلفی کی طرف سے منڈوا ڈیہہ میں تاجا خاندان کے باغ میں کیا گیا۔ عرب شیوخ(شیخ ربیع اور شیخ ہادی ) بھی جشن میں شریک ہونے والے تھے، میں چوں کہ جامعہ سلفیہ میں موظف تھا اس لئے استاذنا مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی جو صاحب طرزادیب اور بڑے اچھے شاعر تھے انہوں نے مشاعرہ کا پروگرام بنا یا اور اعلان مجھ سے اور میرے نام سے لگوایا۔ اعلان چسپاں کر دیئے جانے کے بعد میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اعلان میری طرف سے ہے اور میں اگر کوئی شعر پیش نہ کر سکا تو لوگ کیا خیال کریں گے؟ یہ خیال آتے ہی طبیعت میں ایک خلجان پر پا ہوا اور مصرع طرح کے ارد گرد سوچنا شروع کر دیا۔ مصرع طرح تھا۔ ’’ چمن میں لیکے میں رنگ وبہار آیاہوں‘‘ بہر حال سوچتے سوچتے رات بھر میں چھ ساتھ شعر پر مشتمل ایک غزل تیار ہوگئی، مزید برآں ایک رباعی بھی، صبح کو مولانا آزاد(رحمہ اللہ علیہ) کی خدمت میں بغرض اصلاح پیش کر دیا، انہوں نے نوک وپلک درست کر کے مجھے واپس کر دی۔ مشاعرہ میں وہ غزل مع رباعی سنائی۔ احباب نے مصرع طرح کی تضمین بہت پسند کی۔ پورا شعر اس طرح تھا۔


بہشت زار بنا ہے چمن کا ہر گوشہ

من میں لیکے میں رنگ بہار آیا ہوں


یہ میری شاعری کا آغاز اور ابتدا کی شان ورود ۔ اب اس کے بعد جب بھی کبھی موقع ملتا اور طبیعت میں کچھ جولانی پیدا ہوتی تو کوئی نظم منظر عام پر آجاتی۔
زمانہ کی طوالت کے لحاظ سے میرے اشعار کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کی کئی وجہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ٹھہرا مدرس، ایک مدرس کو دن میں طلبہ کو پڑھانا ہوتا ہے اور رات میں ان موضوعات کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ کتابوں کے مطالعہ میں اور وہ بھی جب زیر درس کتابوں میں احادیث اور تفسیر کی کتابیں ہوں۔ کبھی کبھی رات کے دو تین بج جاتے ہیںاور پھر دن میں طلبہ کے سامنے اپنے مطالعہ کا خلاصہ پیش کرکے طلبہ سے زیادہ اپنی طبیعت کو مطمئن کرنا پڑتا ہے، اس لئے مدرس کو خارجی امور کے لئے کہاں فرصت مل پاتی ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ شاعری طلب چاہتی ہے۔ میں جب تک مدرسہ مظہر العلوم اوسان کوئیاں اور مدرسہ انوار العلوم پرسا عماد میں رہا وہاں اسٹاف اور احباب کی طرف سے مطالبہ ہوتا اور ادھر ادھر تبلیغی جلسوں میں بھی اشعار سنانے کی فرمائش ہوتی۔ اس لئے کوئی نظم منظر عام پر لانے کی کوشش کی جاتی اور عموما لوگ جلسوں میں ان اشعار کو سن کر انعام سے نوازا کرتے تھے۔ مدرسہ انوار العلوم پرسا عماد میںمیرے ایک دوست تھے جو ہمیشہ نئی نظم کی فرمائش کرتے اور ماحول سازگار بنا کر میرا شعری ذوق ابھارنے کی کوشش کرتے ۔ کچھ نظمیں جن میں ’’اردو زبان‘‘کے عنوان سے نظم شامل ہے انہی کی مرہون منت ہے جو اس مجموعہ میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر سے نوازے(آمین)
ستمبر ۱۹۷۸؁ء میں میری تقرری جامعہ سلفیہ میں ہوئی۔ اس وقت یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقعہ پر مشاعرہ ہوتا تھا، جس میں طلبہ مجھے بھی مدعو کرتے ، لیکن اس وقت تک مولانا آزاد رحمانی کا انتقال ہو چکا تھا اور کچھ دیگر اسباب کی بنا پر یہاں کا ادبی ذوق گدلا ہو چکا تھا، اس لئے مشاعرے بند ہو چکے تھے۔ کچھ دن تک پابندی کے باوجود چلے ،پھر بالکل ختم کر دیئے گئے۔ اس طرح شعری ذوق بھی مدھم پڑ تا گیا۔ اللہ تعالیٰ جزاء خیر سے نوازے بزرگ دوست ہم درس ساتھی مولانا محمد مستقیم سلفی کو، جو مجھ سے ایک سال کے بعد جامعہ میں بحیثیت مدرس پہونچے اور میرے شعری ذوق کو سنبھالادیا اور ہمیشہ شعر کہنے اور سننے کی فرمائش کرتے رہتے۔ اس طرح بہت ساری نظمیں وجود میں آئیں، مثلا: دیوالی، ہولی، استاذنا المکرم مولانا عبد المعید بنارسی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر تعزیتی نظم وغیرہ۔
بہر حال کسی قدر تھوڑی سی توجہ شعر گوئی کی طرف ۸۹۔۱۹۸۸؁ ء تک رہی ،پھر اس میں انجماد آگیا اور بڑا طویل انجماد ۔ یہ انجماد مارچ ۲۰۰۳؁ء میں ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس کی اچانک وفات پر ٹوٹا۔ یہ اتنا زبردست حادثہ تھا کہ اس نے پورے جامعہ اور اہل علم طبقہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی وفات پر تعزیتی نظم لکھی تو پھر اس کے بعد بھی کچھ نظمیں تیار ہوتی گئیں اور آج بحمد اللہ وعونہ وہی مختصر مجموعۂ اشعار زیر طبع ہے۔
میں نے اس شعری مجموعہ کا نام ’’ پرواز ‘‘ رکھا ہے اور یہ نام آج کا نہیں بلکہ جس کاپی پر میں نے اشعار نوٹ کئے ہیں، اس کے سرورق پر یہی نام مرقوم ہے۔ اس لئے بغیر کسی تغیر اور تبدیلی کے وہی نام آج بھی باقی رکھتا ہوں۔
اس مجموعہ میں سب سے پہلے حمد ونعت ہیں۔ مگر نعت برائے نام ایک آدھ ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نعت میرے نزدیک بڑی نازک صنف ہے۔ تھوڑی سی غفلت سے کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ذرا سا اوپر اٹھو تو شرک لازم آئے۔ تھوڑاسا نیچے اترو تو ہتک رسول کے مجرم بنو (نعوذ باللہ) اسی لئے نعت کی صنف سے بڑا خوف سا لگتا ہے۔
دوسرا حصہ نظموں پر مشتمل ہے جن میں تہوار، تقریبات، اور تعزیت وغیرہ پر مشتمل نظمیں ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ تقریبات کی تہنیت پر مشتمل نظمیں نکال دی جائیں مگر مطیع الرحمن’سلمہ اللہ‘ راضی نہ ہوئے۔ انہوں نے یہ دلیل دی کہ اس سے ایک تاریخ بنے گی۔
پھر تیسرے حصہ میں غزلیں ہیں۔ ان غزلوں میں محبوب کا ذکر، محبوب کی باتیںِ ان کی صفات حسنہ اور محبت کا تذکرہ ہے۔ مگر وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میری شریک حیات ہی ہیں۔ اسی لئے کہیں کہیں ان کا نام ’’میمونہ ‘‘ یا’’ شہناز‘‘آیا ہے۔ مکمل نام ’’ میمونہ شہناز‘‘ ہے۔ ہاں البتہ بعض غزلوں میں کچھ دوسری حکایتیں منظوم کی گئی ہیں اور وہ بھی بعض دوستوں کی فرمائش پر اردوزبان چونکہ میری محبوب زبان اور مادری زبان ہے، اس لئے اس کو میں نے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ کیوں کہ محبوب کا صرف ایک نام نہیں ہوتا بلکہ اس کوہر طرح کے محبت بھرے ناموں سے پکارا جا سکتا ہے۔ نظموں کی تاریخ وجودمذکور ضرور ہے مگر اس میں ترتیب نہیں ہے۔
بہر حال اس مجموعہ کا اصل ما حصل اور مقصود حمدیں اور دعائیں ہیں۔ انہی کی تاثیر مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور میری اخروی نجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین۔
شعر کیا ہے؟ شاعری کسے کہتے ہیں؟ اس کے محاسن ومکارم کیا ہیں؟ اور معائب ونقائص کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ یہ ساری باتیں مجھے اب بھی کچھ زیادہ معلوم نہیںاور پہلے تو کچھ بھی معلوم نہ تھا ،کیوں کہ میں نے علم العروض کی کوئی کتاب پڑھی نہیں تھی۔ ہماری تعلیم کے زمانے میں جامعہ سلفیہ کے نصابی کورس میں یہ فن داخل درس نہ تھا۔ بعد میں یہ فن داخل نصاب کیا گیا اور اتفاق سے جامعہ سلفیہ میں تدریس کے لئے میری تقرری کے بعد یہ فن مجھے ہی پڑھانے کو ملا ، اس کی تدریس کے لئے مجھے بڑی محنت کرنی پڑی۔ اس طرح اس فن سے کچھ تھوڑی سی آشنائی ہوئی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بڑا مشکل فن ہے۔ عربی علم العروض میں کل سولہ بحور ہیں۔ ان سولہ بحروں میں ضروب کی تعداد تعداد سرسٹھ (۶۷) بنتی ہے۔ پھر بحر متدارک سے مزید تین بحریں نکلتی ہیں ۔ اس طرح بحور کی انواع ستر(۷۰) بن جاتی ہیں۔ ادھر اردو زبان میں علم العروض نے آکر بڑی وسعت پیدا کی۔ یہاں عربی کے بالمقابل بحروں کی انواع کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ۔ ایسی ایسی بحریں نکالی گئیں جن کا عربی علم العروض میں پتہ بھی نہیں ۔ بلکہ عربی شاعری میں وہ غیر مسموح ہیں، اس لئے عربی علم العروض اور اردو علم العروض میں بڑا فرق ہوگیا ۔
ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر شاعری کی فطرت صحیح طور پر بیدار ہو جائے تو مشہور بحروں پر شعر کہنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ شعر کی لے اگر بیٹھ جائے تو پھر وزن درست ہوگا اور اس کی دیگر خاصیتیں بھی مکمل ر ہیں گی۔ مثلا عربی علم العروض میں شعر کی تعریف کے جو اجزاء ترکیبی ذکر کئے گئے ہیں، ان میں کمی اور نقص نہ ہوگا۔ وہاں شعر کی تعریف یہ کی گئی ہے۔ ’’ شعر وہ موثر کلام ہے جو باوزن ہو، مقفی ہو، اور شعر کہنے کے ارادہ سے کہا گیاہو‘‘ اس تعریف کے مطابق غیر موزون کلام خواہ کتنا ہی پرتاثیر ہو وہ شعر نہیں۔اس تعریف کے مطابق شعراء کے وہی کلام شعر میں داخل ہیں جو ان صفات اربعہ کے حامل ہوں، اردو زبان کے مشہور شعراء کا کلام اور عربی زبان میں جاہلی شعراء سے لیکر بعد کے دور تک کا کلام شعر میں داخل ہے، کیونکہ وہ سب ان صفات اربعہ سے متصف ہیں اور جو کلام ان صفات پر پورا نہ اترے وہ شعر سے خارج ہے۔ بہر حال اس فن کی تھوڑی بہت معلومات ہونے کے بعد میں نے اپنے کلام کی بہت سی نظموں کا وزن کیا تو وزن درست ہی نکلا ۔(فالحمد اللہ علیٰ ذالک)
جامعہ سلفیہ میں آنے سے پہلے میرا تحریری کام چند مقالات ومکالمات پر مشتمل تھا، جن میں سے بعض کو کہیں کہیں اشاعت کے لئے بھیج دیا تھا۔ سلفیہ میں آنے کے بعد اس میدان میں بھی عمل کا تجربہ ہو ا اور کچھ چیزیں عربی ،اردو میں منظر عام پر آئیں اور بعض ابھی تک تشنۂ طباعت ہیں ۔ میری تصنیفی خدمات درج ذیل ہیں:
(۱) حکم الدعاء وآدابہا (عربی؍مطبوع) (۲) تعلیق ، مراجعہ وتصحیح سیرۃ البخاری(عربی؍مطبوع) (۳) تعلیق ومراجعہ فتح المنان( عربی مطبوع) (۴) جماعت اہل حدیث کی تدریسی خدمات(اردو ؍مطبوع) (۵) معاویہ بن ابی سفیان سو صفحات کا ترجمہ (اردو مطبوع) (۶)دعاکے آداب واحکام (اردو مطبوع) (۷) مختصر قواعد اردو (مطبوع) (۸) مسائل ومشکلات (اردو ؍مطبوع) (۹) مبارکپور کا ایک علمی خانوادہ(مطبوع) (۱۰)تفسیر شوکانی طریقۂ تدریس واستفادہ (اردو؍ مطبوع) (۱۱) مختصر علوم التفسیر والامام الشوکانی ومزایا تفسیرہ (عربی ؍غیر مطبوع) (۱۲) نور الیقین(ترجمہ اردو ؍غیر مطبوع) (۱۳) عالم وطاغیہ’’ظلم کی ٹہنی …(ترجمہ اردو؍غیر مطبوع) (۱۴) چند مشاہیر علماء کرام (اردو؍غیر مطبوع ) (۱۵) مختصر البلاغہ(اردو؍غیر مطبوع) (۱۶) مختصر تاریخ ادب عربی دور جاہلیت واسلام (اردو غیر مطبوع) (۱۷) تدوین حدیث ، امام مسلم اور ان کی صحیح کی خصوصیات (اردو ؍غیر مطبوع) (۱۸) پرواز (مجموعہ (کلام ؍زیر طبع ) (۱۹) بعض التفاسیر المہمۃ (عربی؍غیر مطبوع) (۲۰) بعض اہم مفسرین کے سوانح (اردو ؍غیر مطبوع )ان کے علاوہ کچھ مقالے اور چھوٹے موٹے رسالے جو اردو، عربی میں مطبوع اور غیر مطبوع شکل میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ تقریبا بیس کتابیں میرے مراجعہ اور تصحیح کے بعد شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ مزید بر آں عالمیت اور فضیلت کی اسناد کے حصول کیلئے میری زیر نگرانی واشراف میںطلبہ نے جو مقالے تیار کئے ہیں ، ان کی تعداد ایک سو ساٹھ (۱۶۰) سے اوپر ہے، جن میں سے بعض بعض مقابلے بڑی گراں قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان خدمات کو شرف قبولیت عنایت فرمائے۔ آمین۔
میں نے تو شاید کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ میرا یہ مجموعہ کلام زیور طبع سے آراستہ ہوگا ۔ہاں البتہ بہت سے لوگوںنے منتخب اشعار اشاعت کے لئے مانگے تھے اور یہ فرمائش کئی جہت سے بار بار آئی ،مگر میری طبیعت اس طرح کی اشاعت کے لئے آمادہ نہ ہوئی۔ اب میرے فرزند ارجمند مطیع الرحمن(سلمہ اللہ تعالیٰ) اس کی طباعت کے لئے کوشاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو پوری کرے اور اس کی اشاعت پر انہیں اور ان کے سارے معاونین کو دونوں جہان کی بھلائیوں سے نوازے۔ آمین۔
میرے اس مجموعہ کلام سے اردو ادب میں کوئی اضافہ تو نہ ہوگا ، لیکن میں نے اپنی فہم کے مطابق راہِ تقلید چھوڑ کر کچھ نیا کہنے کی کوشش کی ہے۔ اب فیصلہ ارباب ذوق اور دانش وران اصناف ادب کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر اس مجموعہ کے کچھ اشعار پسند آگئے تو میں سمجھوں گا کہ میری سعی وجہد کا ثمرہ مجھ کو مل گیا۔ ویسے ہر قسم کا کمال اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات کو حاصل ہے۔ مجھ عاجز وبے نوا کو جو کچھ ملا اسی ذات عالی کا عطیہ وانعام ہے ، اور اس کے لئے میری جبین بندگی سراپا سجدہ ریز ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ اپنے اس مجموعہ نظم کے لئے وقت کے عظیم، مقتدر عالم اور دانشور، اردو اور عربی اصناف ادب کے ماہر استاذ مکرم ، مشفق معظم جناب ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری سے تقریظ لکھنے کی گزارش کروں گا ،مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ یہ مجموعہ ابھی کمپوز اور تصحیح اغلاط کے مرحلہ میں تھا کہ استاذ محترم مختصر سی علالت کے بعد ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹؁ء جمعہ کے روز دار فنا سے دار بقا کو سدھار گئے۔اس اچانک روح فرسا حادثہ سے پورا جامعہ سلفیہ لرز اٹھا اور تمام ہندستان نیز بیرون ہند علماء اور شاگردان کا طبقہ رنج وغم میں ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور اعلیٰ علیین میں صدیقین ، صالحین اور شہداء کی رفاقت مرحمت فرمائے۔ آمین۔ بہر حال اس قضا وقدر کے فیصلہ کے سبب یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔
میں شکر گزار اور ممنون کرم ہوں بزرگوار محترم جناب حیدر قریشی صاحب (جرمنی) کا جن کا شمار موجودہ وقت کے منتخب ادباء اور دانشوران میںہوتا ہے۔ کہ انہوںنے اپنے احسان وکرم سے اس مجموعہ کا مطالعہ کیا اور اپنی وقیع تحریر اس کے لئے عنایت فرمائی اور اس سے آگے بڑھ کر بڑے بڑے ادباء سے اس مجموعہ کے لئے تاثرات حاصل کئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے اہل وعیال کو صحت وعافیت سے رکھے اور دونوں جہان کی خیر وبرکات سے نوازے۔ آمین۔
اسی طرح میں ممنون وشاکر ہوں جناب عبد اللہ جاوید (کنیڈا) ، مبشر سعید (فرانس)، ناصرنظامی(ہالینڈ) ،شبانہ یوسف(انگلینڈ)کاجنہوں نے اس مجموعۂ کلام کے لئے اپنے گراں قدر تأثرات قلم بند کئے۔ ان حضرات نے بذریعہ انٹر نیٹ ان اشعار کا مطالعہ کیا۔ اور اپنے اپنے تأثرات ارسال فرمائے۔ محترم جناب عبد اللہ جاوید صاحب نے تو اس طرح نظموں کا مطالعہ کرکے چند لفظوں پر مشتمل اپنے تأثرات تحریر فرمائے، لگتا ہے کہ زندگی بھر میرے ساتھ رہے ہوں اور مجھے پر کھ کر دیکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صحت وعافیت بخشے، اور دونوں جہان کی سرخروئیاں عطا فرمائے۔ آمین۔ اور دراصل یہ سب کچھ ثمرہ ہے محترم حیدر قریشی (جرمنی)کی عنایات کا ۔ ورنہ میری رسائی ان بلند پایہ حضرات تک کہاں ممکن تھی۔ میری زبان اور میرا قلم ان کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت وعافیت کے ساتھ علم وادب کی خدمت کی توفیق دے اور دونوں جہان کی بھلائیاں عطا فرمائے۔ آمین۔
اسی طرح میں ممنون وشاکر ہوں محترمہ ڈاکٹر نفیس بانو صاحبہ ( صدر شعبۂ اردو وسنت کالج بنارس) کا جو اردو کی مشہور ادیبہ اور شاعرہ ہیں کہ انہوںنے میرے کلام کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اس کے لئے اپنی گراں قدر تحریر عنایت فرمائی۔نیز شکر گزار ہوں محترم شیخ اسعد اعظمیؔ مدنی(استاذ جامعہ سلفیہ بنارس) کا جو اردو اور عربی ادب میں خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اس مجموعہ کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اپنی پروقار تحریر مرحمت فرمائی۔ صدیق مکرم جناب شیخ محمد ابو القاسم فاروقی (استاذ جامعہ رحمانیہ بنارس) اور عزیز گرامی جناب ڈاکٹر محمد اختر علیگ (لیکچرر شعبہ اردو وسنت کالج بنارس ) کا احسان بھی ناقابل فراموش ہے۔ کہ انہوں نے اس مجموعہ کا بغور مطالعہ کیا اور محترمہ ڈاکٹر نفیس بانو صاحبہ کے تأثرات کے حصول میں اعانت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صحت وعافیت بخشے اور دونوں جہان کی کامرانیوں سے ہم کنار کرے آمین۔
اس سلسلے میں مطیع الرحمن عزیز سلمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے احباب (شہاب اللہ وغیرہ) بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کی کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ، تزئین کاری اور طباعت کی مشکلات برداشت کیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے اور دونوں جہان کی سرخروائی سے نوازے۔آمین۔
وصلیٰ اللہ تعالیٰ وسلم علیٰ سیدنا محمد النبی الأمی الذی أرسل رحمۃ للعالمین وعلیٰ آلہ وأصحابہ وأزواجہ وذریاتہ وأھل بیتہ أجمعین ومن تبعھم باحسان الیٰ یوم الدین۔
وآخر دعوانا أن الحمد اللہ رب العالمین۔

Related posts

’مجھ کوبھی آسر اہے تری اک نگاہ کا‘

Paigam Madre Watan

’حمد رب غفور‘

Paigam Madre Watan

’حسن طلب‘

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar