عالمی یوم کتاب اور کاپی رائٹ کے موقعے پر قومی اردو کونسل کے زیراہتمام یک روزہ بک کنکلیو کا اہتمام
نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے زیراہتمام 23 اپریل 2025 کو عالمی یوم کتاب اور کاپی رائٹ کے موقعے پر یک روزہ بک کنکلیو کا انعقاد ہوا جس کے تحت تین اجلاس ہوئے۔ پہلے اجلاس کا عنوان ’مصنوعی ذہانت کے دور میں کاپی رائٹ کے چیلنجز‘ تھا جس کی صدارت پروفیسر محمد افشار عالم وائس چانسلر جامعہ ہمدرد نے کی۔ تعارفی اور استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ قاری، مصنف اور ناشر کی تثلیث سے ایک کتاب کی تشکیل ہوتی ہے۔کتاب سے ایک انٹیلکچول ڈسکورس قائم کیا جاسکتا ہے۔ کتاب کے ذریعے ہی ہم ایک مہذب سماج کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ تحریر و تخلیق کی مثال بچے کی ہے،جو اس کے مصنف کی ملکیت ہوتی ہے،اے آئی یا کسی بھی ذریعے سے کسی کی کتاب یا تخلیق کو اپنے نام سے شائع کروانا گویا کسی کے بچے کو کڈنیپ کرنے جیسا ہے۔ پروفیسر محمد افشار عالم نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ کاپی رائٹ آج کے عہد کا ایک بہت گمبھیر مسئلہ ہے اور اس کے تعلق سے حکومت کے ساتھ ساتھ بہت سے تعلیمی ادارے بھی حساس ہوگئے ہیں اور اس حوالے سے اقدامات بھی کررہے ہیں۔قومی اردو کونسل کا یہ پروگرام اس حوالے سے ایک یادگار قدم ہے۔وانی پرکاشن گروپ،نئی دہلی کی سی ای او محترمہ ادیتی مہیشوری نے کہا کہ اے آئی کے دور میں کاپی رائٹ کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، موجودہ دور میں جب کہ اے آئی اپنے عروج پر ہے ایک نئے ترمیم شدہ کاپی رائٹ قانون کی ضرورت ہے۔ انٹلکچول پراپرٹی رائٹس کی مشہور وکیل محترمہ دہلیا سین اوبرائے نے اپنی تقریر میں کاپی رائٹ کے مختلف پہلوؤں اور مصنوعی ذہانت کے دور میں اس کے چیلنجز پر مربوط اور مبسوط گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ قانونی اور عدالتی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی دراصل کسی کی محنت پر شب خون مارنے جیسا ہے اور یہ کسی دوسرے کی ملکیت پر غاصبانہ قبضہ کرنے جیسا ہے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاداب شمیم نے انجام دیے۔
دوسرے اجلاس میں‘پریم چند: مطالعے کی نئی جہتیں’نامی کتاب کا اجرا ہوا۔یہ کتاب ہندی کے معروف دانشور ڈاکٹر کمل کشور گوئنکا نے تصنیف کی ہے،جس کا ترجمہ جناب محمد صغیر حسین نے کیا ہے۔اس تقریب کی صدارت جناب اے رحمان نے کی۔ انھوں نے صدارتی تقریر میں مختلف زبانوں سے کیے جانے والے اردو ترجمے کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ترجمے کی زبان مترجم کی علاقائی وابستگی وغیرہ کی وجہ سے بدل جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پریم چند پر لکھی گئی اس کتاب میں ان کی زندگی،شخصیت اور تخلیقات کے حوالے سے ایسی بہت اہم معلومات ملتی ہیں،اس اعتبار سے یہ کتاب منفرد قرار دی جاسکتی ہے۔ اس موقعے پر پروفیسر محمد کاظم، پروفیسر شاہینہ تبسم اورکتاب کے مترجم محمد د صغیر حسین نے بھی کتاب کے تعلق سے اظہارِخیال کیا۔ پروفیسر صغیرافراہیم مہمانِ اعزازی کے طور پر شریک ہوئے۔ انھوں نے مذکورہ کتاب اور پریم چند کے حوالے سے بہت سے اہم نکات کی نشان دہی کی۔ نایاب حسن نے اس پروگرام کی نظامت کی۔
تیسرے اجلاس کا موضوع‘نئی نسل میں سائنسی مزاج کا فروغ’تھا جس کی صدارت ڈاکٹر محمد اسلم پرویز (سابق وائس چانسلر مانو، حیدرآباد) نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ علم کا اصل مفہوم ہی سائنس ہے اور ہم سائنسی مزاج اپنائے بغیر انفرادی و اجتماعی ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔انھوں نے کہا کہ اردو میں سائنسی مواد کی تیاری اور زیادہ سے زیادہ اشاعت موجودہ دور کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ماجد احمد تالی کوٹی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سائنسی مواد کے ترجمے و اشاعت کے حوالے سے قومی اردو کونسل لائق تحسین خدمات انجام دے رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کے ساتھ زندگی کے دوسرے تمام شعبوں میں ہمیں سائنسی اپروچ اختیار کرنا چاہیے۔ اس اجلاس میں ماہر امراض چشم ڈاکٹر عبدالمعز شمس نے اظہار خیال کیا۔ نظامت ڈاکٹر عبدالباری نے کی۔اس اجلاس میں قومی اردو کونسل سے شائع شدہ بچوں کی کتابیں انسانی دماغ(انس مسرور انصاری)،بھوجی نہیں بوجی،مچھلی کے بچے،خزانوں کی تلاش اور عریش کا اجرا بھی عمل میں آیا۔