Articles مضامین

احمد آباد طیارہ حادثہ ۔۔۔تذکیرموعظت کے چند نقوش

مفتی محمد عبداللہ قاسمی
12 جون 2024 بروزجمعرات کی دوپہر۔۔۔ جب سورج  وسط آسمان پر ضیا پاشی کر رہا تھا اور دھوپ اپنی تابانی سے ساری دُنیا کو منور کر رہی تھی۔۔۔ ایک خوف ناک اور روح فرسا خبر لے کر آئی، ڈیڑھ بجے احمد آباد ہوائی اڈہ سے لندن جانے کے لیے ایک مسافر بردار پرواز (اے آئی ١٧١بوئنگ ٧٨٧-٨ ڈریم لائنز)نے اُڑان بھری، مگر محض چالیس سیکنڈ بعد ہی طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث ٹیک آف کرتے وقت دلخراش حادثہ کا شکار ہو گیا، طیارہ میں سوار تمام ٢٤٢ مسافر…صرف ایک کو چھوڑ …جل کر راکھ ہو گئے، یہ طیارہ ایک میڈیکل کالج پر گرا، جہاں ٹریننگ لینے والے  ڈاکٹرز دوپہر کے کھانے میں مصروف تھے، اُن کی ایک بڑی تعداد بھی اس سانحہ کا نذرانہ بن گئی، اُن کی ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا اندازہ نہیں، ابھی حکومت کی جانب سے اس کا باقاعدہ اعلان باقی ہے، یہ حادثہ اپنے پیچھے سسکتے ہوئے والدین، بلکتے ہوئے  بچوں اور اشک بار رشتہ داروں کو چھوڑ گیا، یہ دل گداز حادثہ کئی گھروں کو اجاڑ گیا، آرزؤں اور تمناؤں کے ایک ہرے بھرے نخلستان کو ویران کر گیا، متعدد افراد کے سنہرے خوابوں کو چکنا چور کر دیا، روشن اور تابناک مستقبل کی منصوبہ بندیوں پر پانی پھیر دیا، واقعی یہ خبر پوری انسانیت کے لیے افسوس ناک غم انگیز اور دل دہلا دینے والی ہے۔
موعظت آموز اسباق
اس حادثے کے پیچھے ظاہری اسباب (جیسے تکنیکی خامی، انسانی غلطی یا انتظامی کوتاہی) کا جائزہ لینا اور ان غلطیوں کی تلافی کرنا یقیناً وقت کی اہم ضرورت ہے،طیارے کی پرواز سے قبل ضروری حفاظتی اقدامات (جیسے مشینری کا مکمل معائنہ، موسمی تجزیہ، اور ایمرجنسی منصوبہ کا فعال ہونا) کو کیوں یقینی نہیں بنایا گیا؟یہ وہ امورہیں جن کا فوری غیرجانب دارانہ اور سائنسی بنیادوں پر جواب ضروری ہے۔تاہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے صرف ظاہری اسباب کے دائرہ میں الجھ جانا اور اسی علت و معلول کے بکھیڑے میں پھنسے رہنا ہمارے شایانِ شان نہیں، ہمیں اس سے آگے بڑھ کر کچھ موعظت آموز اسباق پر غور کرنا چاہیے، اس لیے کہ کائنات کے اندر رونما ہونے والی ہر چھوٹی یا بڑی تبدیلی اپنے اندر عبرت و نصیحت کا سامان رکھتی ہے، اور انسانی ضمیر پر دستک دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، بہ قول شاعر:
انقلابات جہاں واعظ رب ہیں سن لو
ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
اللہ کی قدرت کاملہ اور انسانی بے بسی کا مظہر
اس حادثہ کا ایک سبق یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی شان کبریائی کا اعتراف کرتے ہوئے انسان اپنی محتاجی اور بے بسی کو سمجھے، کیوں کہ یہ طیارہ ۔۔۔جو بوئنگ جیسی دنیا کی مشہور و معتبر ترین ایرو اسپیس کمپنی کا بنایا ہوا تھا ، اور جس کے حفاظتی نظام پر عالمی سطح پر اعتماد کیا جاتاتھا، ڈبل انجن جیسی سہولیات سے یہ طیارہ آراستہ تھا، مزید برآں اس طیارہ کا پائلٹ آٹھ ہزار دو سو گھنٹے کی پرواز کا تجربہ رکھتا تھا۔۔۔ محض چالیس سیکنڈ میں جل کر خاکستر ہو گیا، یہ دل دہلا دینے والا منظر انسان کی تمام تر سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز پیش رفت کے دعوؤں اور حفاظتی منصوبہ بندیوں کو پل بھر میں بے معنی دیتا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی تدبیریں کر لے، اپنے زعم میں کتنی ہی ترقی حاصل کر لے وہ اللہ کے سامنے ایک حقیر ذرّہ اور بے بس مخلوق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، یہ حادثہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی شانِ عظمت کو آشکاراکرتا ہے ،اورہمیں یاد دلاتا ہے کہ کائنات کی ہر شے اسی کے حکم کے تابع ہے، اسباب کے تمام پھندوں سے بالاتر ہو کر سوچیں تو معلوم ہو گا کہ ایسے واقعات انسان کو اس کی اصل حقیقت سے روشناس کراتے ہیں، ہماری تمام کوششیں اسی کی مشیت کے محتاج ہیں، ہمارا علم و اختیار اسی کے سامنے عاجزی سے جھکتا ہے، اور ہر لمحہ یہی اعتراف ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ اللہ کی شان کبریائی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
موت کی یاد دہانی
اس حادثے کا گہرا سبق یہ ہے کہ ہم موت کی یاد ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس کے بعد پیش آنے والی زندگی کے لیے تیار رہیں، طیارہ میں سوار مسافروں میں سے کسے خیال تھا کہ یہ سفر لندن کا نہیں، بلکہ آخرت کی منزل کا ہوگا؟ ہم نے جو خوبصورت کپڑے پہنے وہ درحقیقت اپنے ہاتھوں سے اپنا کفن زیب تن کیا تھا، جو غسل کیا وہ دنیا سے رخصت ہونے والوں کا آخری غسل تھا، ان ہلاک ہونے والوں میں بوڑھے بھی تھے اور جوان بھی، کمزور بیمار بھی تھے اور صحت مند طاقت ور نوجوان بھی، کیا کسی جوان نے سوچا تھا کہ اِس شادابی ورعنائی میں بھی موت کا پنجہ اسے دبوچ لے گی؟ اور عہد جوانی کی ساری بہاریں موت کی وجہ سے موسم خزاں کے نذر ہو جائیں گی،یہ المیہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے،چاہے ہم جوانی کی دہلیز پر ہوں یا بڑھاپے کے آخری کنارے پر،چاہے ہم اپنے گھر میں رہائش پذیر ہوں، چاہے حفاظتی انتظامات کے لیے مشہور جدید ٹیکنالوجی سے لیس سواری میں سوار ہوں، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہوتے وقت یہ دعا سکھائی: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ۔ یہ الفاظ ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ ہر عارضی سفر میں اس حقیقی سفر کو نہ بھولیں جہاں سے کوئی واپسی نہیں، سواری چاہے فضا میں اُڑ رہی ہو یا زمین پر دوڑ رہی ہوہماری منزل آخرت ہی ہے؛ لہٰذا موت کو یاد رکھنا ایمان کی جان ہے، اور اِس یاد کے بغیر زندگی محض بے مقصد سفر ہے۔
تقدیر الہی پر پختہ یقین
اس جان کاہ حادثہ کاایک بنیادی سبق اللہ تبارک و تعالیٰ کی تقدیر پر پختہ ایمان ہے، ازل میں لکھا گیا فیصلہ ہو کر رہتا ہے خواہ پوری دنیا اُس کے خلاف اکٹھی ہو جائے، جن و انس کی تمام قوتیں مل کر بھی اللہ کے حکم کو نہ ٹال سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں، اِسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اور جان لو! اگر ساری امت جمع ہو کر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہے تو صرف اُتنا ہی پہنچا سکتی ہے جتنا اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا، اور اگر سب مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو صرف اُتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں جتنا اللہ نے تم پر لکھ دیا،(یاد رکھو) قلم اٹھ چکے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔ (ترمذی)
اللہ کے اِس ناقابلِ تردید فیصلے کا ہی اثر تھا کہ لندن جانے والا طیارہ جو حفاظتی اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور تھا اور جسے آٹھ ہزار دوسوگھنٹے کے تجربہ کار پائلٹ نے اُڑایا تھا مسافروں کے لیے موت کا پروانہ بن گیا، ایک پل کی بھی مہلت نہ ملی کہ کوئی خود کو بچا پاتا، صرف وہی ایک مسافر زندہ بچا جس کی موت کا وقت تقدیرِ الٰہی کے مطابق نہیںآیا تھا، حالاں کہ اُس نے چاروں طرف لاشوں کے ڈھیر دیکھے تھے، آگ کے شعلوں میں گھرتے ہوئے جہاز کو دیکھا تھا، وہ خود موت کے خوفناک اور مہیب پنجہ کے درمیان تھا اور موت کے فولادی ہاتھ اس کی سانسیں چھیننے کے لیے بے تاب تھے ؛ لیکن وہ موت کے منہ سے صحیح سالم واپس آگیا یہ سانحہ ہمیں اپنے تقدیر پر ایمان کو تازہ کرنے اور اللہ کے فیصلوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے اور جبینِ نیاز جھکانے کی دعوت دیتا ہے۔
ہر شر میں خیر کا پہلو
اس خوفناک حادثہ کا ایک سبق یہ ہے کہ بظاہر ناگوار حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کی پوشیدہ رحمت کارفرما ہوتی ہے، جب کوئی مصیبت، پریشانی یا تکلیف دہ واقعہ پیش آئے جسے ہم اپنے لیے نقصان دہ سمجھیں تو یاد رکھیں کہ بسا اوقات اسی کے پیچھے کوئی بڑی بھلائی چھپی ہوتی ہے، جیسا کہ اس سانحہ میں ایک خاتون کی روداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹریفک جام کی وجہ سے ایئرپورٹ دیر سے پہنچی، طیارہ کا داخلی دروازہ بند ہو چکا تھا، طیارہ رن وے پر دوڑنے کے لیے تیار تھا، عملہ نے ان کی منت سماجت اور طیارہ چھوٹنے کے مالی نقصان کے باوجود انہیں طیارہ میں سوار ہونے کی اجازت نہ دی، اس خاتون نے ایئرپورٹ کے عملہ سے تکرار اور بحث کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، خاتون ناراض ہو کر واپس لوٹی؛ مگر کچھ ہی دیر بعد جانتی ہے کہ وہی طیارہ حادثے کا شکار ہوا جس پر سوار ہونے کے لیے اس نے ایئرپورٹ کے عملہ سے جھگڑا کیا تھا، اور ان سے تیز و تند بات کی تھی، اب خاتون کا غصہ شکر گزاری میں بدل گیا، ٹریفک کا خلل، عملہ کی سختی اور پرواز چھوٹناجس کو اب تک خاتون مصیبت اور تکلیف سمجھ رہی تھی اب یہی چیزیں اس کے لیے سامان رحمت ثابت ہوئی، اور یہ ساری چیزیں خاتون کے لیے سفینہ نجات بن گئیں۔یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ: ظاہرِ حالات کبھی پوری حقیقت نہیں بتاتے، ناگوار چیزوں میں بھی خیر ہو سکتا ہے، چاہے ہمیں اس کا ادراک فوری نہ ہو، ایسے میں اللہ کی حکمت پر کامل یقین رکھنا چاہیے، کیونکہ وہی جانتا ہے کہ کون سی مصیبت کس کے لیے رحمت بنے گی ؛لہٰذا جب بھی کوئی آزمائش آئے تو دل میں یہی پختہ یقین تازہ رکھیں:
عَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ(سورۃ البقرۃ: ٢١٦)
ہو سکتا ہے تمہیں کوئی چیز ناگوار لگے اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے تمہیں کوئی چیز اچھی لگے اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔
مخلوق سے خالق کا سفر
اس المناک حادثہ کے ظاہری اسباب کا مکمل علم تو بلیک باکس کی ڈی کوڈنگ، پائلٹ کے آخری پیغامات اور مشینری کے پیرامیٹرز کی جانچ پر منحصر ہے؛ لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جو وجوہات بھی سامنے آئیں گی وہ حتمی "کیوں” کا جواب نہیں دے سکیں گی، فرض کر لیں کہ انجن کی ناکامی یا پائلٹ کی غلطی یا تکنیکی خرابی وجہ بنی، پھر بھی سوال اٹھے گا:وہی انجن کیوں فیل ہوا جس کے حفاظتی انتظامات پر دنیا بھروسہ کرتی تھی؟ وہی پائلٹ کیوں غلطی کر بیٹھا جس کے پاس آٹھ ہزار دوسو گھنٹے اڑان کا تجربہ تھا؟ وہی مشینری کیوں ناکام ہوئی جو لاکھوں حِسابی نقشہ سے گزارے گئے تھے؟ جن توجیہات اور علل کو طیارہ حادثہ کے پس پردہ کارفرما قرار دیا جائے گا وہ درحقیقت درمیانی کڑیاں ہوں گی، حقیقی جواب تو یہ ہے : ان الحکم الا للہ اس کائنات کے اندر حکم صرف اور صرف اللہ کا چلتا ہے،وہ انسان جس کی فطرت صحیح سلامت ہو،اور مصنوعی اور غیر حقیقی نظریات کے ذریعہ اس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفلوج اور ناکارہ نہ ہوئی ہو تو وہ لازمی طور پر اس نتیجے تک پہنچے گا کہ:   ہر "کیوں” کا اختتام اللہ کی مشیت پر ہوتا ہے، ہر سبب کا سرا اُسی کے حکمِ تکوینی سے جُڑا ہے، اور ہر واقعہ درحقیقت انسان کو اُس کی بے چارگی یاد دلا کر ربّ سے رشتہ جوڑنے کا پیغام ہے؛لہٰذا یہ صرف طیارہ کا حادثہ نہیں، بلکہ ایک توجہ دہانی ہے کہ ہمارے تمام اسباب اُسی کی قدرت کے محتاج ہیں، اور ہر "حل” کا حقیقی سرچشمہ صرف وہی ہے۔
طول امل پر کاری ضرب
طیارے میں سوار مسافروں کی اکثریت ہندوستانی شہریوں پر مشتمل تھی، کچھ برطانوی شہری بھی طیارہ میں سوار تھے، ہندوستانی باشندے عام طور پر مغربی ممالک کا رخ اس امید پر کرتے ہیں کہ وہاں دولت کمانےاور روشن مستقبل بنانے کاخواب پورا ہوگا، صحیح معنوں میں پرکیف اور نشاط اور زندگی گزارنے کا موقع ملے گا، عہد شباب کی تمام ادھوری تمنائیں پھولوں کی طرح وہاں کھل اٹھیں گی، دنیاوی زندگی کی تمام لذتیں اور لطافتیں وہاں میسر ہوں گی، چنانچہ اس حقیر مقصد کے لیے وہ دن رات محنت کرتے ہیں، خون پسینہ ایک کرتے ہیں ، مغربی ممالک میں بسنے کے لیے جان توڑ کوششیں کرتے ہیں ، لمبی چوڑی منصوبہ بندیاں کرتے ہیں، برسوں کا سامان زیست اکٹھا کرتے ہیں ،بقول شاعر:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
یہ حادثہ یاد دلاتا ہے کہ ہمیں طول امل (لمبے چوڑے منصوبوں کی فکر) سے بچنا چاہیے، دنیا کے لیے وسیع آرزوئیں باندھنے کے بجائے اُس ہمیشہ کی زندگی کی تیاری کرنی چاہیے جہاں انسان کو ابد تک رہنا ہے، یہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔

Related posts

امبانی کا ہمارے نوابوں سے کیا مقابلہ

Paigam Madre Watan

  دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

Paigam Madre Watan

پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا ولیمہ

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar