Rashhat-E-Qalam رشحات قلم

جامعہ سلفیہ میں تقرری

تصنیف: مولانا عزیز الرحمن سلفی (سابق استاذ وشیخ الحدیث جامعہ سلفیہ، بنارس

ماخوذ: رشحات قلم (مطبوع)

مدرسہ انوارالعلوم پرسا عماد میں مجھے کوئی تکلیف نہیں تھی کچھ وہاں کے نظام سے دل متاثر تھا کیوں کہ گائوں کے رہنے والے طلبہ کے ساتھ اساتذہ کے لڑکوں کا ارتباط رخنہ ڈال رہاتھا۔ اور اسی وجہ سے میں نے چوتھے سال مدرسہ کے طلبہ وغیرہ کی نگرانی کی ذمہ داری قبول نہ کی تھی۔ یہی چیز کبھی کبھی دل میں کھٹکتی تھی اور اسی لیے طبیعت میں اضمحلال رہتاتھا۔ دل چاہتا تھا کہ کسی دوسری جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں کے حالات اس طرح کے نہ ہوں۔ اسی لیے آخری درس مسلم کے مقالہ میں میں نے کچھ اشارہ کردیاتھا ؎


آج موقعہ ہے آئو گلے سے ملیں
کل موافق زمانہ رہے نہ رہے

اس اشارہ کو بعض احباب نے سمجھ بھی لیاتھا اور بعد میں مجھ سے پوچھ بھی رہے تھے کیا آئندہ کہیں دوسری جگہ منتقل ہونے کا خیال ہے کیا؟ لیکن میں نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیاتھا بلکہ ہنس کر ٹال دیاتھا کیا پتہ تھا کہ مالک قضا وقدر کی تدبیر بھی اسی طرح کی ہے؟
مدرسہ سے چھٹی ہونے کے بعد گھر چلاگیا اسی دوران مولانا عبدالسلام صاحب مدنی رحمہ اللہ علیہ کے بدست جامعہ سے میرے لیے طلب پہنچی، میں نے کب یہ سوچا تھا کہ جامعہ سلفیہ میں کسی وقت مدرس بنوں گا اور وہاں تدریس کا کام انجام دوں گا۔ میرے خواب وخیال میں بھی کبھی یہ بات نہ آئی تھی۔ بڑا تعجب ہوا اور ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔ مولانا عبدالسلام صاحب نے اتنی بات زبانی بھی کہی کہ عنقریب مولانا محمدعابدرحمانی صاحب بنارس جائیں گے ان کا وہیں سے ممبئی کے لیے ٹکٹ بناہواہے آپ ان سے ملاقات کرکے پروگرام معلوم کرلیں اور ان کے ساتھ ہی چلے جائیں۔ میں مولانا عابدرحمانی صاحب کے گھر گیا اور ان سے پروگرام معلوم کرکے ذہنی طور پر تیار ہوگیا۔
ہوا یہ کہ ۱۹۷۸ء؁ میں قبیل رمضان استاذگرامی جناب مولانا محمدادریس آزاد رحمانی کا انتقال ہوگیا (افسوس یہ ہے کہ فراغت کے بعد استاذ محترم سے ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ ۱۹۷۶ء؁ میں بونڈہار کے جلسہ میں پیچھے سے دیکھا تھا یہ لوگ کرسی لگاکر مشرقی جانب بیٹھے تھے میں بھی اسی جانب تھا مگر دور پیچھے کی طرف تھا۔ ایک شاگرد سے مولانا وغیرہ کے لیے چائے بھجوادی تھی جب وہ لڑکا چائے لے کر گیا تو انہوںنے پوچھا چائے کہاں سے آئی ہے۔ اس لڑکے نے میرا نام بتایا تو ان لوگوں نے کہا کہ چائے بھیج دی ملاقات نہیںکی۔ لڑکے نے کہا کہ جلسہ کے اس پروگرام کے ختم ہونے کے بعد ملاقات کریں گے۔ جلسہ میں میرے صدیق مکرم مولانا عبدالحفیظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوئے تھے او رپہلے میرے ہی گھر آکر ٹھہرے تھے۔ پھر گورکھپور اہلیہ کی دوا کے لیے گئے وہاں سے سیدھے جلسہ گاہ میں پہنچے تھے۔ اور ایک دور کے رشتہ دار کے یہاں ٹھہرے تھے۔ میں جلسہ ختم ہونے کے بعد انہی کے ساتھ چلاگیا سوچا کہ مولانا حضرات تو ابھی رہیں گے ہی ملاقات کرلوں گا۔ میں نے اپنی دونظمیں ان کے پاس اصلاح کے لیے بھیجی تھیں اس کے سلسلے میں بات بھی کرلوں گا جب میں دوپہر کو ملاقات کی غرض سے آیا تو معلوم ہوا کہ جامعہ سلفیہ کے لوگ واپس چلے گئے۔ بڑی تکلیف اور کوفت ہوئی۔ یہ غم ہمیشہ کے لیے باقی رہ گیا۔ میری نظمیں بھی ان کے کاغذات میں گم ہوگئیں وہ اصلاح نہ کرسکے۔ بعد میں ان کے کاغذات کے انبار سے میری دونوں نظمیں نکلیں) مولانا کے انتقال کی وجہ سے ایک جگہ خالی ہوگئی تھی ۔ دوسرے مولانا عبدالحنان صاحب فیضی اپنی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے جامعہ کو خیرباد کہہ کر جھنڈا نگر چلے گئے تھے اس لیے ایک جگہ مزیدخالی ہوگئی۔ ان دونوں جگہوں کو پرکرنا تھا۔
مولانا محمدعابدرحمانی صاحب اپنے گھریلو حالات کے پیش نظر جامعہ سلفیہ سے استعفاء دے کر گھر چلے گئے تھے اس کے بعد کچھ دنوں تک مدرسہ سراج العلوم بونڈہار میں پڑھایا۔ پھر تقریباً دوسال سے وہ بھی مدرسہ انوارالعلوم پرساعماد میں پڑھا رہے تھے لیکن حسب سابق جامعہ سلفیہ کے لیے تعاون کے حصول کی خاطر رمضان میں مالیگائوں اور ممبئی جاتے تھے۔ اس سال بھی وہ اسی کے لیے ٹکٹ وغیرہ بنوانے کی غرض سے پرساعماد کی چھٹی کے بعد بنارس جامعہ سلفیہ میں تشریف لائے تو یہاں کے ذمہ داروں نے پھر سے جامعہ کی تدریس کے لیے انکو تیار کرلیا اور وہ راضی بھی ہوگئے۔ اب دوسری جگہ پرکرنے کی بات تھی۔ اس سلسلہ میں جامعہ کے ذمہ داروں نے کچھ قدیم فارغین کے نام پیش کئے او رجامعہ میں تقرری کے لیے رائے لی۔ مولانا پرساعماد میں دوسال رہ کر مجھے سمجھ چکے تھے او رمیرے استاذ بھی تھے۔ انہوںنے فرمایا کہ کسی اور کو تو میں ٹھیک سے نہیں جانتا مگر عزیزالرحمٰن کی ذمہ داری لے رہاہوں وہ ان شاءاللہ آپ کے معیارپر پورے اتریں گے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے اس اعتماد کو قائم رکھے اور ان کے اس احسان پر پورا پورا بدلہ عطا کرے! آمین لوگوں کو مولانا کی یہ رائے پسند آئی اور ان لوگوں نے مولانا محمدعابدرحمانی سے کہا کہ جب آپ ممبئی جانے کے لیے بنارس آئیں تو عزیزالرحمٰن کو ساتھ لیتے آئیں۔ اور ادھر مولانا عبدالسلام مدنی کے بدست ایک تحریر بھی میرے پاس ارسال کردی۔ اس طرح رمضان سے کچھ دن پہلے میں مولانا کے ساتھ بنارس آیا۔ مولانا تو اپنے پروگرام کے مطابق ممبئی چلے گئے او رمیں جامعہ میں رہ گیا۔ ایک دن استاذگرامی جناب مولانا عبدالوحید صاحب رحمانی (شیخ الجامعہ) او راستاذگرامی جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری (وکیل الجامعہ) نے مجھے ایک کمرے میں بلایا او رمجھے بیٹھا کر تدریسی مواد او راس کے لیے معاون کتابوں کے بارے میں سوال کیا میں اب تک جن کتابوں سے اپنی تدریس میں مددلیتا تھا۔ان کے بارے میں بتادیا۔ پھر دوکتابیں یکے بعد دیگرے میرے سامنے رکھ کر مجھ سے پڑھوائیں (واضح ہو کہ یہ کتابیں اب تک میرے لیے بالکل نئی تھیں میں نے کبھی ان کو دیکھا ہی نہیں تھا) وہ دونوں کتابیں تھیں ’’البلاغۃ الواضحۃ اور تفسیر فتح القدیر جلد چہارم تفسیر سورۃ النور، اس میں مسئولہ عبارت ایک اعرابی اختلاف کے بیان پر مشتمل تھی۔ بہرحال میری ناقص فہم میں جتنا ممکن ہوسکتا تھا میں نے بتایا مجھ سے کہا گیا کہ مشورہ کرکے آپ کو کچھ دیر بعد بتادیا جائے گا۔یہ باتیں ابھی ہوہی رہی تھیں کہ ڈاکٹر ازہری صاحب کے پاس ایک ٹیلی فون آیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ڈاکٹرعبدالعلی ازہری مئوی کی والدہ یا والد کا انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹر عبدالعلی کا خاندان ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری کے رشتہ میں پڑتاہے او رفیض عام کے بعد مصر میں تقریباً چھ سال تک دونوں کا ساتھ رہا۔ ڈاکٹر ازہری صاحب فوراً مئو چلے گئے اور میرا مسئلہ معلق ہوگیا۔ اس کے بعد میں بنارس میں دوتین روز ٹھہرارہا، ڈاکٹر ازہری صاحب واپس بنارس تشریف نہیںلاسکے تو شیخ الجامعہ نے مجھ سے کہا کہ تم گھر چلے جائو بذریعہ ڈاک تمہیں فیصلہ کی اطلاع دے دی جائے گی۔ اس لیے میں گھر چلا آیا۔ ابھی رمضان شروع نہیں ہواتھا اس لیے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ مدرسہ انوار العلوم پرساعماد کے ناظم کو استعفیٰ بھیج دیا۔
لیکن ایک بات بار بار میرے ذہن کو کھٹکتی رہی کہ آج تک جامعہ سلفیہ میں کسی عربی مدرس کا انٹرویو نہیں لیاگیاتھا میرا ہی انٹرویو کیوں لیاگیا۔ یہ چیز عرصہ تک میرے ذہن میںالجھن کا سبب بنی رہی۔ پھر میرے دل میں ایک خیال آیا او رمیرے ذہن ودماغ نے یہ فیصلہ کیا کہ انٹرویو کا سبب یہ ہے۔
ہوایہ تھا کہ کچھ لوگوں نے اپنی فراغت کے بعد یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے جامعہ سلفیہ میں تدریس کا موقع دیا جائے۔ ایک سے زائد لوگو ں نے اس طرح کی درخواست پیش کی تھی چنانچہ ان لوگوں کو موقع دے دیاگیامگر کوئی آدمی معیار پر پورا نہ اترا۔ ایک آدھ ماہ کے بعد ازخود علاحدہ ہوکر گھر کا راستہ اختیارکرلیا۔ اور دوسری جگہ کہیں سنبھال لی۔ اب یہاں کے ذمہ داران کا ایک مزاج بن گیاتھا کہ جامعہ کا کوئی فارغ التحصیل عالم جامعہ کے طلبہ کو نہیں پڑھاسکتا ۔ مدینہ وغیرہ سے مزید تحصیل علم کرکے آنے والا ہی پڑھا سکتاہے۔ اسی وجہ سے ان دونوں ذمہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ مولانا محمدعابد رحمانی استاذ مکرم کے مکمل اعتماد ظاہر کرنے کے باوجود عزیزالرحمٰن کو کچھ پرکھ کر دیکھ لیا جائے۔ یہی سوچ کر میرا دل مطمئن ہوگیا۔ واللہ أعلم بذالک
بہرکیف رمضان بھر پرساعماد کے ذمہ داروں کی آمد ہوتی رہی اور ان کی سفارش اور اصرار اپنے یہاں رہنے کے لیے جاری رہا۔ عید کے بعد ۶؍۵شوال ۱۳۹۸ء؁ کو اچانک مولانامفتی حبیب الرحمان صاحب ناظم مدرسہ فیض عام مئو اپنے مدرسہ کے مدرس ماسٹر رفیع اللہ کے ساتھ میرے گھر پہنچ گئے۔ ۲۴؍گھنٹہ میرے گھر قیام کیا مجھ سے جو خدمت ممکن ہوسکتی تھی اور میرے گھر جو میسر تھا وہ کھانے پینے کے لیے ان کی خدمت میں پیش کرتا۔ اس ۲۴؍گھنٹہ میں مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ تشریف آوری کا سبب کیاہے؟ وہ بھی معلوم نہ ہوسکا۔ نہ ان لوگوں نے بتایا اور نہ میں نے پوچھنا مناسب سمجھا۔ دوسرے دن ۴؍بجے عصر کی نماز کے بعد مفتی صاحب نے فرمایا: اب ہم لوگ اپنے گھر واپس جائیں گے ، چلو ہم لوگوں کو بس اسٹینڈ یعنی کورئی بھاری تک چھوڑآئو۔ ان لوگوں کو بس اسٹینڈ تک پہنچانے کے لیے پیدل ان کے ساتھ چل پڑا کوئی سواری نہ تھی، یہ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا راستہ تھا نصف راستہ جب طے ہوچکا تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ سناہے تم نے (مفتی صاحب فیض عام میں میرے پونے دومہینہ کے استاد تھے) پرساعماد سے استعفاء دے دیاہے تو ہم لوگ تم کو اپنے یہاں لے جانے کے لیے آئے ہیں ہماری پیش کش منظور کرلو۔ میں نے اپنی گھریلومجبوریاںان سے بیان کیں اور ایسی شرطیں رکھیں جن کو میں اپنے خیال سے ان کے لیے ناقابل قبول سمجھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ وہ لوگ ان شرطوں کو ہرگزہرگز منظور نہ کریں گے لیکن جتنی شرطیں میں نے ان کے سامنے رکھیں سب کو انہوںنے منظور کرلیا اور آخر کار بس پر بیٹھتے بیٹھتے مجھ سے اپنے یہاں آنے کا اقرارکرالیا۔ میں نے ان کے سامنے جو شرطیں رکھی تھیں ان میں سے کوئی چیزوہاں کے مدرسین کو حاصل نہیں تھی۔ مثلاًآپ کے یہاں اساتذہ کو کھانا نہیں ملتا میں پکاکر نہیں کھاسکوں گا اور نہ ہی خوراکی ادا کرسکوں گا ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کو کھانا دیں گے اور مفت کھانا دیں گے۔ میں نے کہا کہ بازار کا ناشتہ کھاکر نہیں رہ سکتا ان لوگوں نے کہا کہ آپ کو ناشتہ بھی دیا جائے گا۔میں نے کہا کہ وہاں کے اساتذہ کو ۳؍۴ماہ میں تنخواہ ملتی ہے میرے حالات ایسے ہیں کہ اتنی مدت تک میں انتظار نہیں کرسکتا مجھے ہر ماہ گھر پر اخراجات کے لیے پیسہ بھیجنا پڑے گا۔ انہوںنے کہا کہ ہم آپ کو ہر مہینہ تنخواہ دیں گے۔ میں نے کہا میں اپنے گھر کا اکیلااور تنہا ہوں کچھ ایسے حالات کبھی کبھی ہوتے ہیں کہ مجھے چھٹیوں کے علاوہ گھر جانا پڑے گا۔ انہوںنے کہا کہ آپ جب چاہیں گے آپ کو چھٹی مل جایا کرے گی۔اتنے میں بس بھی آگئی اور وہ لوگ سوار ہو کر اپنے گھر کی طرف نکل گئے اور میں اپنے گھر چلایا آیا۔
واضح ہو کہ یہ ۶یا۷شوال کا دن تھا اب تک جامعہ سلفیہ سے مجھے کوئی جواب نہیں ملا تھا اب جامعہ کی طرف سے میں مایوسی کا شکار ہوچکا تھا اور ڈرتھا کہ کہیں میں اسی انتظار میں بیٹھا نہ رہ جائوں۔ اور پھر کہیں کا نہ رہ جائوں اسی وجہ سے میں نے ان سے وعدہ کرلیا۔ انہوںنے کہا کہ ۱۱؍شوال کو آپ فیض عام میں پہنچ جائیں اب اس اقرار کے بعد میں مطمئن ہوگیاتھا کہ چلوسرکاری معیار سے تنخواہ ملے گی ۔ کھانا وناشتہ اور ہر ماہ تنخواہ ملے گی ۔ ضرورت پر چھٹیاں بھی مل جایا کریں گی یہ ساری سہولتیں وہاں کے اساتذہ کو حاصل نہ تھیں۔
یہی حال تھا کہ سترہ (۱۷) رمضان المبارک کا لکھا ہوا خط بذریعہ ڈاک ۹؍شوال المکرم ۱۳۹۸؁ہجری کو بعد نماز عصر دستیاب ہوا جس کی وجہ سے ایک تہلکہ مچ گیا مغرب کا وقت قریب تھا مسجد میں نماز اداکرنے کے بعد بعض بزرگوں سے اپنے سارے کوائف بتاکر مشورہ طلب کیا تو سب نے بیک زبان یہ رائے دی کہ جامعہ سلفیہ جائو فیض عام مت جائو مگر یہ رائے مجھے اچھی نہ لگتی تھی۔ میں نے ان لوگوں سے کہا میں نے مفتی صاحب سے فیض عام آنے کا وعدہ کرلیاہے یہ وعدہ خلافی نہ ہو گی؟ ان بزرگوں خصوصا مولانا خلیل رحمانی مرحوم نے کہا کہ جامعہ سلفیہ کا وعدہ مقدم ہے اس لیے کہ وہاں سے ۱۷؍رمضان ہی کو خط لکھا گیاہے ڈاک کی غلطی کی وجہ سے خط آپ کو دیر سے ملا اسی لیے ترجیح اسی کو حاصل ہے۔ کل آئندہ ہی نکلناتھا۔ مغرب کے بعد جامعہ میں پڑھنے والے طلبہ کا سلسلہ لگ گیا سب کا اصرار تھا کہ جامعہ ہی چلو ، مولانا عبد الغفور صاحب مرحوم بعض بزرگ لاٹھی ٹیکتے ہوئے میرے پاس آئے اور انہوںنے بھی جامعہ سلفیہ ہی جانے کا حکم دیا اللہ تعالیٰ ان سارے بزرگوں اور نیک رائے دینے والوں کو اجرجزیل سے نوازے اور ان سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
۱۰؍شوال کو گھر سے نکلنے لگا تو میں نے اپنی اہلیہ سے اس کے بارے میں پوچھا کہ کیا کروں؟ تو انہوںنے یہ رائے دی کہ آپ فیض عام جائیے۔ اس لیے کہ مفتی صاحب سے آپ وعدہ کرچکے ہیں وعدہ خلافی کرنا اچھا نہیں ہے۔ بہرحال طلبہ کے ساتھ میں بھی گھر سے نکلا بستی اسٹیشن پر گاڑی میں بیٹھا تو یہی خیال تھا کہ مئو آنے پر خاموشی سے اترجائوں گا مگر اللہ تعالیٰ جو بھی کرتا ہے وہی درست ہوتا ہے۔ مئو گاڑی پہنچی تو میری آنکھ لگ گئی اور جب وہاں سے چل پڑی تو میری آنکھ کھلی میں نے طلبہ سے پوچھا کون سا اسٹیشن ہے تو وہ سب تالی بجاکر قہقہہ لگانے لگے اور بیک زبان کہا اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ ہونا تھا وہ ہوگیا۔ آپ کی رائے درست نہیں تھی اس زمانہ میں ہمارے گائوں کے تقریباً پندرہ بیس طلبہ جامعہ میں پڑھتے تھے اور تقریباً سب لوگ ساتھ ہی میں تھے۔
بنارس جامعہ میں پہنچنے کے بعد غسل کیا اور لوگوں سے ملاقات کے لیے نکلا تو سب سے پہلے محترم ومکرم استادگرامی جناب مولانا شمس الحق صاحب سلفی سے ملاقات ہوئی، علیک سلیک اور خیروعافیت کے تبادلہ کے بعد مولانا نے پوچھا: جامعہ میں آگئے، میں نے جواب اثبات میں دیا اور عرض کیا کہ مولانا آتوگیا ہوں لیکن طبیعت میں ایک خلجان برپا ہے اور ذہن الجھا ہواہے۔ انہوںنے سبب دریافت کیا تو میں نے مفتی صاحب کے میرے گھر جانے سےلے کر اب تک کی روداد سنادی اور عرض کیا کہ مولانا مجھ سے بہت بڑی وعدہ خلافی ہورہی ہے۔ میرے بارے میں مفتی صاحب وغیرہ کا کیا تاثر ہوگا؟ یہ سوچ سوچ کر بہت الجھن ہے اور ذرا بھی سکون واطمینان نہیں ہے اللہ تعالیٰ میری اس خطا کو کیسے معاف کرے گا؟
استادمحترم نے برجستہ کہا: عزیزالرحمٰن !تمہیں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے عذاب سے بچالیا ہے میں خو دبھی وہاں رہ چکاہوں ، وہاں غیرمقامی اساتذہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتاہے، میں سب جانتا ہوں۔ میں نے مولوی محمدحنیف کو وہاںفیض عام کی تدریس کے لیے رکھوادیاہے وہ لوگ ان کی اتنی توہین کرتے ہیں ، اتنا ظلم کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اجیرن ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرو کہ اس نے اپنی نوازش سے تم کو بہت بڑے عذاب سے بچا لیا۔ یہ اللہ کا بہت بڑا کرم اور اس کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے تم کو اس جہنم زار سے نجات دے دی۔
تم اس مفہوم کا مفتی صاحب کے پاس خط لکھ دو ۔ چنانچہ میں نے مفتی مولانا حبیب الرحمٰن کو اپنا خط بھیج دیا جس میں یہ عرض کیاتھا کہ ’’جامعہ سلفیہ سے میرا پہلے ہی سے معاملہ چل رہا تھا ان کا وعدہ مقدم تھا کیوں کہ ڈاک کی خرابی سے ۱۷؍رمضان المبارک کا لکھا ہوا خط اور بھیجا ہوا ملفوف مجھے ۹؍شوال المکرم کو ملا۔ یعنی ۲۲؍روز کے بعد۔ اس لیے میں پہلے وعدہ کے ایفاء پر مجبور ہوں۔ میرے بزرگوں کی بھی یہی رائے ہے اس لیے اس عریضہ کو میرا استعفاء سمجھا جائے او رمیری جگہ پر کسی اچھے استاذ کو تلاش کرکے تقرری کرلی جائے۔ امید کہ میری اس مجبوری اور بدعہدی کو قابل معافی سمجھیں گے ۔ والسلام
عزیز الرحمٰن سلفی
۱۲؍شوال ۱۳۹۸؁ہجری
۱۷ ؍ستمبر ۱۹۷۸ء

اس خط کے لکھنے اور بھیجنے کے بعد میرے دل کو سکون ہوگیا۔
جامعہ سلفیہ میںجب داخلہ کی کارروائی مکمل ہوگئی او راسباق کی تقسیم ہوئی تو میرے لیے تین اسباق منتخب کئے گئے(۱)مشکوٰۃ جلد۲، شرح الوقایہ جلد۲، کلیلہ ودمنہ مع الانشاء ، وقت پر میں نے تدریس کا کام شروع کردیا البتہ یہاں ساری مستقبل کی باتیںسوچ کر خوف لگتا تھا اس کی دووجہیں تھیں پہلی بات یہ کہ کچھ فارغین سے طلبہ مطمئن نہ ہوئے نتیجتاً انہوںنے ازخود استعفاء پیش کردیا اور دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔ دوسری وجہ یہ کہ یہاں طلبہ کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ایک ایک جماعت میں کئی مدارس کے طلبہ کو یکجا کرلیا جاتا تو ہوسکتا ہے کہ ایک جماعت کے برابر ہوتے۔ مثلا: عالم اول ہی میں اس سال ۹۲؍ طلبہ تھے ۔ اس خوف ودہشت کے باوجود میں نے اپنا کام اللہ کا نام لیکر شروع کردیا او رہرطرح کی جھجھک کو دل سے نکال دیا اور اللہ کا شکرہے کہ میں پہلے ہی روز سے طلبہ کو مطمئن کرنے اور ان کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
ایک تعجب یہ بھی تھا کہ مجھ کو سب سے کم صرف تین گھنٹیاں دی گئیں اور سارے اساتذہ کی پانچ گھنٹیاں تھیں،مگر ایک ماہ گذرنے کے بعد جب ڈاکٹر ازہری صاحب بیرون ہند سفر پر جانے لگے تو اپنی گھنٹیاں میرے حوالے کرگئے۔ اس طرح وہ مصلحت سمجھ میں آگئی جس کے سبب مجھے صرف تین گھنٹیاں دی گئی تھیں۔ اب تین گھنٹیوں کی بجائے میں نے پانچ گھنٹیاں پڑھائیں۔ ڈاکٹر ازہری صاحب کی جو دوگھنٹیاں مجھے ملیں و ہ تھیں:
(۱) فتح القدیر للشوکانی (۲)دوسری کتاب البلاغۃ الواضحۃ
دوسرے سال یعنی میرے آنے کے ایک سال بعد مولانا محمدمستقیم سلفی صاحب بحیثیت مدرس جامعہ سلفیہ میں تشریف لائے تو انہوںنے مشکوٰۃ جلد۲ اور شرح الوقایہ اپنے لیے منتخب کی یعنی ان سے کہا گیا جو کتاب چاہو لے لواور انہوںنے اپنے لیے کتابیں منتخب کیں مگر میرے آنے پر مجھ سے انتخاب کے لیے نہیں کہا گیا ۔ بہرحال اللہ کا شکر ہے کہ سال بھر پڑھانے کے بعد نہ طلبہ کو کوئی شکایت ہوئی حتی کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں میں بھی طلبہ مطمئن رہے بلکہ فتح القدیر میں تو طلبہ نے گھوم کرکے دوبارہ مجھ سے شروع نصاب پڑھا اور نہ ذمہ داروں کو کوئی شکایت کا موقع ملا ۔ جب مولانا محمدمستقیم نے آکر میری کتابیں پسند کرلیں تو پھر مجھے جلالین عالم اول (از ابتدا تا اعراف) اور ترمذی شریف مل گئیں ۔ پھر ۱۹۸۴ء؁ کے بعد میری مسلسل کوشش کے نتیجہ میں مولوی عبدالوہاب حجازی کو تدریس سے منسلک کیا گیا تو انہوںنے ترمذی شریف کا انتخاب کیا تو مجھے مؤطا مل گئی۔
۱۹۸۲ء؁ میں مولانا احسن جمیل صاحب (ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی کے بھتیجے) جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ سے منسلک ہوئے اور اعزازی طور پر (بلا معاوضہ) پڑھانے لگے ، عقیدہ میں بی اے کے چاروں سالوں میں پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا جامعہ اسلامیہ کی طرف سے اور وہاں کے بعض اصحاب خیر کی جانب سے بہت سا انعام ملاتھا اور اسی نسبت سے جامعہ سلفیہ کے دارالحدیث ہال میں ایک تہنیتی اور مبارکباد کا پروگرام منعقد ہوا تھا۔ شروع میں وہ عقیدہ ہی کی کتاب پڑھاتے تھے پھر انہوںنے موطا امام مالک لے لی تو مجھ کو صحیح مسلم مل گئی۔ صحیح مسلم جلد۱، کئی بار پڑھائی اسی دوران ہم تین ساتھیوں کو بیک بار (مولانا محمدمستقیم سلفی، مولانا عبدالوہاب حجازی اور خاکسار عزیزالرحمٰن سلفی) جامعۃ الملک سعود ریاض میں تدریب المعلمین کے کورس میں داخلہ ہوگیا۔ ہم لوگ وہاں چلے گئے تو ہماری درسی کتابیں دیگر مدرسین کے مابین تقسیم کردی گئیں ستمبر ۱۹۸۷؁ء تا فروری ۱۹۸۸؁ء ہم لوگ جامعۃ الملک میں رہے اسی وقفہ میں زیارت حرمین شریفین کے شرف سے مشرف ہوئے۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ ام القریٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ واپسی ہوئی تو سال کا آخر ہورہاتھا اس لیے ہم لوگوں کو درس سے معاف رکھاگیا۔ رمضان کی تعطیل گذارنے کے بعد شوال میں جب جامعہ نئے تعلیمی سال کے لیے کھلا تو مجھے تدریس کے لیے صحیح مسلم جلدثانی مل گئی اور تاہنوز وہی جلد ثانی زیرتدریس ہے۔(اب فالج زدہ ہونے کے بعد ۲۰۱۵ء؁ سے تدریس کا سلسلہ موقوف ہوگیا ۔ اور اب گھر پر زندگی گزار رہاں ہوں۔) تقریباً ۲۶؍ سال کا زمانہ گذرچکا ہوگا۔صحیح بخاری کے لیے مجھ سے کئی بار اصرار کیاگیا پہلی بار ۱۹۹۲ء؁ میں کہا گیاتھا مگر اس وقت بعض ایسے لوگ جامعہ میں درآئے تھے جو اصل ذمہ داروں سے زیادہ لوگوں پر اپنی حکومت چلاتے تھے اور خود اپنے تئیں اتنا عظیم اور صاحب علم بنتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیامیں کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہے۔ دوسروں کی تحقیق وتعلیق اور تصانیف اپنے نام سے طبع کرانا ہی ان کا شیوہ تھا ان کی جتنی تصنیفات ہیں (جن کا ذخیرہ ان کے چمچے اتنا بتاتے ہیں کہ اگر ان کو کھڑاکرکے ان کی تصانیف چارو ں طرف سے رکھ دی جائیں تو ان کو ڈھانک لیں گی اور کسی طرف سے وہ نظر نہ آئیں گے) مگر میرے ایک سفر ستمبر ۱۹۸۸؁ء پر ڈاکٹر ازہری صاحب کی بڑی دختر ’’زہرہ بتول‘‘ کو علاج کے لیے مدراس لے جانا پڑا تومجھ کو بھی ساتھ بھیجا گیا میری غیرحاضری کے ایام میں مسلم شریف کا درس انہیں کو دے دیا گیا جب واپسی ہوئی تو طلبہ نے ان کا معیار بڑی اچھی طرح ذکر کیا اور ان کے حقیقی علم ومعرفت کا خوب تذکرہ ہوا ۔ اسی لیے جب دوبارہ فروری ۱۹۸۹ء؁ میں مجھے مدراس زہرہ بتول کی عیادت کے لیے بھیجا گیا تو سارے طلبہ نے بیک زبان یہ کہہ دیا کہ درس کا ناغہ ہمیں گوارا ہے لیکن کسی دوسرے کے پاس پڑھنا گوارا نہیں(یہاں کسی سے مراد وہی صاحب تصانیف کثیرہ ہیں) خود ڈاکٹر ازہری صاحب کے فرزند ڈاکٹر فوزان نے جو ان دنوں جامعہ میں زیرتعلیم تھے ڈاکٹر صاحب کے سامنے کہہ دیا کہ مولانا اپنی کتاب کسی کو نہ دیجیے گا۔
اسی عبقری نے ایک بار مجھے حکم دیا کہ فلاں کام کیا کرو تو میں نے فوراً اس کو ڈانٹ کر کہا ’’اپنی حدمیں رہو، حد سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو‘‘ اس کے بعد دوبارہ کسی بات کے کہنے کی ہمت اس کو نہیں ہوئی۔ ان ہی عبقری لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے میں نے صحیح بخاری کی تدریس قبول نہ کی۔
پھر اپریل ۲۰۰۳ء؁ میں ڈاکٹر رضاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال (ڈاکٹر رضاء اللہ کا انتقال ۳۰ ؍مارچ کو ہوا ، اور ۳۱ مارچ ۲۰۰۳ء؁ کو ان کی تدفین ہوئی، ان کے انتقال پر سبھی لوگ متاثر ہوئے اور اسی اثر کی وجہ سے میں نے ایک تعزیتی نظم لکھی جو ’’پرواز‘‘ میں شائع ہے )کے بعد مجھ سے تمام ذمہ داروں نے مل کر متفقہ طور پر کہا کہ صحیح بخاری کی تدریس آپ قبول کرلیں۔ لیکن میں نے بعض ذمہ داروں کی کرم فرمائی کی وجہ سے قبول نہ کیا۔ اس کے بعد کم از کم ۴؍۵ مرتبہ پھر لوگوں نے کوشش کی کہ بخاری شریف میں لے لوں لیکن ان مواقع پر میں نے اپنی بیماری کاعارضہ پیش کرکے معذرت ظاہر کی۔اس طرح کئی بار کی کوشش کے باوجود میں نے بخاری شریف درس کے لیے قبول نہ کی۔
دوسرا اہم اور حقیقی سبب یہ ہے کہ میں اپنے اندر وہ علم، وہ گہرائی، وہ جذبہ، وہ حوصلہ، وہ فہم نہیں پاتا جو بخاری شریف کی تدریس کے لیے ضروری ہے۔ بخاری شریف کا نام سن کر بھی میرا دل لرز جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ رتبہ اس کتاب کو عطا فرمایاہے جس کے آگے بڑے بڑوں کی دستارگر جاتی ہے اللہ تعالیٰ میری خطائوں اور گستاخیوں کو درگذر فرماکر اپنے دامن عفوورحمت میں مجھ گناہگار وسیہ کار کو بھی جگہ مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

Related posts

تعلیم وتعلم اور اساتذہ کرام

Paigam Madre Watan

بچپن کی بعض آدھی ادھوری باتیں

Paigam Madre Watan

ٹکریا کے باشندگان کے عقائد

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar