Articles مضامین

مظہر عالم مخدومی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
 مظہر عالم مخدومی بھی دنیا چھوڑ چلے، دھیرے دھیرے وہ تمام لوگ جو اردو تحریک کے ہراول دستہ میں تھے اور جن کے دم قدیم سے دوسروں کو تحریک ملتی تھی، وہ سب جارہے ہیں، ایک دن ہم لوگوں کو بھی چلے جانا ہے، مخدومی صاحب کا اصل وطن مولانا ڈیہہ تھا، جو راجگیر کے قریب ہے، راجگیر کے تاریخی آثار میں ایک مخدوم کنڈ بھی ہے، جو حضرت مخدوم اشرف الدین یحیٰ منیری کی طرف منسوب ہے، اسی نسبت کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ مخدوم لکھا کرتے تھے، یہ لاحقہ ایسا مقبول ہوگیا تھا کہ لوگ ان کو اصلی نام سے کم،اس لاحقہ سے زیادہ جانتے تھے، بعد میں وہ نقل مکانی کرکے پٹنہ سیٹی میں  رہنے لگے تھے، یکم فروری2025ء مطابق 2شعبان المعظم 1446ھ بروز سنیچر صبح ساڑھے گیارہ بجے انہوں نے آخری سانس لی، پس ماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی کو چھوڑا، ان کی عمر ستر سال کے قریب تھی، 2فروری کو ان کی نماز جنازہ شیخہ کا روضہ جلوہ ٹولی پٹنہ میں ادا کی گئی، جنازہ کی نماز خانقاہ منعمیہ قمریہ کے سجادہ نشیں سید شاہ شمیم الدین منعمی نے پڑھائی اور کشمیری باغ قبرستان، مغل پورہ چھوٹی بازار پٹنہ سیٹی میں تدفین عمل میں آئی۔
مظہر عالم مخدومی اردو کے بے لوث خادم تھے، چھوٹی بڑی تقریبات میں سامع کی حیثیت سے ضرور شریک ہوتے تھے، کبھی بھی انہوں نے اسٹیج کی زینت بننے کی کوشش نہیں کی، جہاں جگہ مل گئی بیٹھ گئے، تواضع، انکساری کے وہ مظہر اتم تھے، سادی زندگی، سادہ کپڑا اور آخری عمر میں دوپلی خانقاہی ٹوپی زیب تن کیا کرتے تھے، خانقاہی کی صراحت اس لیے کردی ہے کہ کہیں دو پلی کو سمدھی والی ٹوپی نہ سمجھ لیں، دونوں میں بین فرق ہوتا ہے، جسمانی اعتبار سے ضخیم اور موٹے تو وہ کبھی نہیں رہے، ادھر تنفس کے عارضہ نے ہڈی چمڑہ ایک کردیا تھا، معاشی تنگی اور خانگی مسائل سے بھی وہ پوری زندگی جوجھتے رہے، لیکن کبھی زبان پر شکوہ اور گلہ نہیں لاتے تھے، خودداری کو انہوں نے اپنی فطرت اور خوش رہنے کو اپنی عادت بنالیا تھا، اس لیے جب ملتے، جہاں ملتے خوش وخرم نظر آتے، چہک کر ملتے اور لپک کر معانقہ کرتے تھے اردو کی محبت رگ وپے میں سرایت کرچکی تھی، اس لیے اردو تحریک کے لیے کمال الظفر اور سید امانت اللہ کے ساتھ مل کر ایک تنظیم بھی بنا رکھی تھی، جس کے بینر تلے، جلسے، جلوس اور موٹے حروف میں صحیح، غلط طورپر خبروں کی اشاعت نہیں ہوتی تھی، اس تنظیم کے ذریعہ صرف ایک پروگرام میں میری شرکت ہوئی تھی اب تو تاریخ اور جگہ بھی یاد نہیں رہی۔
مخدومی صاحب سے میری پہلی ملاقات 1987ء میں برادم ہارون رشید عرف پپو بھائی نے کروائی تھی، ان کے بڑے بھائی ایم شمیم جرنلسٹ کا انتقال ہوا تھا اور وہ ان کی حیات وخدمات پر ایک مجلہ نکالنا چاہتے تھے، مخدومی صاحب سے ایم شمیم جرنلسٹ کا گہرا یارانہ تھا، اس لیے مضمون نگاروں کی فہرست جو تیار ہوئی اس میں ان کا بھی نام تھا، ہارون رشید صاحب ان دنوں شریف کالونی میں حی کلنک کے پاس رہا کرتے تھے، وہیں مضمون بدست ان سے ملاقات ہوئی تھی،انہوں نے اپنی یادداشت کی مدد سے ایک تاثراتی مضمون لکھا تھا اور خوب لکھا تھا، میں ان دنوں مدرسہ احمدیہ ابابکرپور میں استاذ تھا، جب کبھی پٹنہ آتا اور ملاقات کی سبیل نکل پاتی تو اسے سفر کے لازمہ کے طور پر میں نظام الاوقات میں شامل کرلیا کرتا تھا،  2003ء میں امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے حکم پر سمع وطاعت کے جذبہ سے میں امارت وارد ہوا اور پٹنہ میں قیام کی مستقل شکل بنی تو ملاقاتوں میں اضافہ ہوا، خانقاہوں سے ان کا تعلق قلبی تھا، اس لیے جب کبھی خانقاہ مجیبیہ آتے تو احقر کو فون کرتے، کہتے: مخدومی بول رہا ہوں، پہچانا؟ میں کہتا کہ مخدوم کی نگری کے لوگوں کو نہیں پہچانوں گا تو پھلواری میں رہ کیسے پاؤں گا؟ اور آپ تو پھر بھی مخدومی ہے، یعنی میرے مخدوم، بلکہ آپ کو کوئی مخدوم مانے یانہ مانے، نام ایسا رکھ لیا ہے کہ خواہی نخواہی سب کو اپنا مخدوم ماننا ہی پڑے گا، میرے اس نکتہ آفرینی سے محظوظ ہوتے اور انکساری کے ساتھ کہتے کہ میں صرف نام کاہی مخدوم ہوں۔
مخدوم صاحب کو تعلق نبھانا خوب آتا تھا، مجھے ان کا مخالف تو کوئی کہیں نظر نہیں آیا، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مخالفت، مسابقت اور دشمنی تو صف اول کے لوگوں میں مقام ومرتبہ کی برتری کے لیے ہوا کرتی ہے، اسٹیج اور کرسی کے خواہاں لوگ اسٹیج اور اسٹیج پر کرسی اور آخری مرحلے میں بولنے کا موقع ملنے کی طلب میں  رہتے ہیں یہ چیزیں نہیں ملیں تو نفسیاتی برتری کی ایک لامتناہی جنگ شروع ہوتی ہے، جس میں عزت وآبرو، جبہ ودستار سب داؤپر لگ جاتے ہیں، مظہر عالم مخدومی کو اس کی طلب کبھی نہیں رہی، وہ برتری کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا کبھی حصہ نہیں ہنے، انہوں نے اپنے کو ہمیشہ دوسری صف میں رکھا، اس لیے وہ آپسی ٹکراؤ اور مزاحمت سے بچے رہے۔
ان کی ایک اور بڑی خوبی اخبار بینی اور جو مضمون پسند آجاتے، پابندی سے اس مضمون نگار کی حوصلہ افزائی ہوا کرتی تھی، میرے دسیوں مضمون پر انہوں نے فون پر اپنی رائے دی اور حوصلہ افزا کلمات کہے، قارئین کی کشیدگی کے اس دور میں بھی وہ معاصر مضمون نگاروں کی کاوشوں کی دل سے قدر کرتے تھے اور باریکی سے مطالعہ بھی۔
مخدومی صاحب کے انتقال کا غم تمام اہل علم کو عموماً اور اردو تحریک سے متعلق لوگوں کو ہے، مختلف تنظیموں کی جانب سے تعزیتی بیانات اور ان کے محاسن ومناقب پر مشتمل خبریں شائع ہوئی ہیں، اردو میڈیا فورم، کارروان ادب، اردو کارواں سبھی کے ارکان مخدومی کے انتقال پر مغموم ہیں، لیکن زبان پر وہی کلمہ جاری ہے، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقع کے لیے سکھایا ہے، انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون، ان للہ مااخذ ولہ مااعطی وکل شئی عندہ لاجل مسمی، اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اردو کی خدمت کے لیے ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین

Related posts

وقف ترمیمی بل غیر دستوری

Paigam Madre Watan

اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا، محبوب نہیں رکھتا،کیا آپ ظالم ہیں؟

Paigam Madre Watan

देश की इतनी चिंता करने वाला संगठन फासिस्ट नहीं हो सकता

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar