Articles مضامین

ظلم کے خلاف صدائے احتجاج دہشت گردی نہیں جہاد ہے

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر سراج الدین ندوی , چیرمین ملت اکیڈمی ۔بجنور 9897334419


ظلم کا مطلب ہے کسی پر زیادتی کرنا۔ کوئی شخص بے قصور ہو اس کو سزا دینا۔ بے گناہ کو پکڑلینا۔ کسی کا حق مارنا۔ جو شخص کسی عہدہ کا اہل نہ ہو اس کو وہ عہدہ دے دینا اسی طرح اگر کوئی شخص کسی عہدہ یا منصب کا مستحق ہو اسے وہ عہدہ ومنصب نہ دینا۔ یہ سب ظلم کی صورتیں ہیں۔ ظلم کی تعریف یہ کی گئی ہے ۔وَضْعُ الشَّیِٔ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہِ۔(کسی چیز کو غیر مقام پر رکھنا۔)یعنی کسی مستحق کو اس کا حق نہ دینا اورغیر مستحق کو وہ چیز دے دینا۔ظلم یہ ہے کہ جس انسان کا جو حق ہے اسے نہ دیاجائے یا حق دارو کو چھوڑ کر غیر حق دار کو دے دیا جائے۔یا کسی سے اس کی اجرت سے زیادہ کام لیا جائے۔ظلم زبان سے بھی ہوتا ہے۔کسی کی غیبت کرنا،الزام لگاناظلم ہے۔ایسی بات کہنا جو کسی کے دل کو تکلیف پہنچائے ظلم ہے ۔ کسی مالک کا اپنے نوکر کے ساتھ ایسا رویہ اپناناجو اسے کم تر ہونے کا احساس دلائے نفسیاتی ظلم ہے۔اسی طرح کسی کمزور یا غریب کو دبا کر اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا بھی ظلم ہے۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے ایک بالشت زمین بھی کسی دوسرے کی ظلماً لے لی تو سات زمین کا طوق اس کی گردن میں پہنایا جائے گا (بخاری)۔ ایک اور حدیث مین آپ ؐ نے فرمایا:جس شخص نے ناحق کسی زمین کا تھوڑا سا حصہ بھی لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا(بخاری)۔ اللہ کسی صورت میں ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ وہ خود بھی ظلم نہیں کرتا اور اپنے بندوں کے لیے بھی اس کو پسند نہیں کرتا۔ جس طرح اس نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کررکھا ہے اسی طرح بندوں کے درمیان بھی ظلم کو حرام کیا ہے۔حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کررکھا ہے اورتمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘ایک مومن کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ کسی کو ظلم کرنے دیتا ہے۔ مسلم معاشرہ ہر قسم کے ظلم سے پاک ہوتاہے۔ یاد رکھیے اللہ تعالیٰ جب ظالم کو پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اسے پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں۔‘‘ (متفق علیہ)ظلم سہنا، ظلم دیکھ کرخاموش رہنا،مظلوم کاساتھ نہ دینا،ظالم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بھی ظلم ہے۔قیامت کے دن ظلم کرنے والے کا حشر بہت برا ہوگا۔ جس نے کسی کا حق مارا ہوگا یا کسی پر زیادتی کی ہوگی تو ان حقوق والوں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور جب نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان کے گناہ اسے دے دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اسے جہنم میں ڈھکیل دیا جائے گا۔کتب احادیث میں اس مفہوم کی کئی حدیثیں آئی ہیں۔اسلام ظلم سے بچنے کے ساتھ ساتھ دوسروںکو ظلم سے بچانے کی بھی تعلیم دیتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اوراستطاعت ہو تو طاقت سے ظلم کا خاتمہ کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔‘‘(ابودائود)جس طرح مسلمانوں پر ظلم کرنا گناہ ہے اسی طرح غیر مسلم پر ظلم کرنابھی گناہ ہے ۔مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں سے بھی انسانیت کی بنیاد پر ایک ہی جیسا برتائو کیا جائے گا۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ذمی (یعنی وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتاہے) پر ظلم وزیادتی کرے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس سے کام لے گایا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی رضا مندی کے لے گا تو اُس ذمی کی جانب سے اُس شخص کے ساتھ مقدمہ والا میں (نبی اکرم) خود ہوں گا۔‘‘ (ابودائود)۔مزدورکو اجرت نہ دینابھی ظلم ہے: حضور اکرم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’3 طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کا قیامت میں مَیں فریق بنوں گا(یعنی میں ان کے مخالف کھڑا ہوں گا): وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی، وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی ہو (اور اس طرح اس کی غلامی کا باعث بنا ہو)، اور وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر لیا ہو، پھر کام تو اس سے پوری طرح لیا لیکن اس کی مزدوری نہ دی ہو۔‘‘ (بخاری)۔ اسی طرح فرمان رسول ہے: ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ سوکھنے سے قبل دے دی جائے۔‘‘ (ابن ماجہ)قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا (مسلم)۔حدیث میں فرمایا گیا کہ قیامت کے دن ظلم تاریکی اور اندھیرے کا سبب ہوگا ۔اس کا مطلب یہ کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گیاور اگر نیکیاں کم پڑگئیںتو مظلوم کے گناہ ظالم کے اوپر ڈال دئے جائیں گے،اس طرح ظالم کے سامنے اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا۔ جس کی وضاحت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے بھائی کی آبرو یا کسی اورچیز کے متعلق ظلم کیا ہوتو اس کو چاہئے آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا،اوراگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہوگا تو اس کے ساتھی (مظلوم) کے گناہ اس پر ڈال دی جائیں گے‘‘ (بخاری)ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو عربی زبان میں جہاد کہتے ہیں ۔جہاد انسان کے اپنے نفس سے شروع ہوتا ہے ۔انسان کی بے جاخواہشیں اسے دوسروں کو حق مارنے اور زیادتی کرنے پر ابھارتی ہیں ،بے لگام تمنائیں نیکی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں ۔انسان کے ساتھ شیطان بھی زمین پر بھیجا گیا ہے ،اس کا کام ہی انسانوں سے غلط کام کروانا ہے ۔اس شیطان کے خلاف لڑنا ہی جہادبلکہ بڑاجہاد ہے ۔سماج اور معاشرے میں بعض ظالم لوگ کمزوروں کو ستاتے ہیں ،ان کمزوروں کی حمایت کرنا اور ظالم کو ظلم سے روکنا ہی جہاد ہے ۔انسان کی پوری تاریخ میں یہ جہاد ہمیں نظر آتا ہے۔اسے کسی بھی طرح سے ہنسا،تشدد،انتہا پسندی اور دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا ۔اللہ کے نیک بندے اور سماج کے سچے خیر خواہوں نے ہمیشہ برائیوں کے خلاف جہاد کیا ہے ۔ہندوستانی سماج میں’’ ستی پرتھا ‘‘تھی ،بیوائوں کو نکاح ثانی کی اجازت نہ تھی،چھوت چھات اس قدر تھا کہ کسی ادنیٰ ذات کو اپنے برابر بٹھانا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا ۔اس کے خلاف وقتاً فوقتاً بہت سے مصلحین اٹھے انھوں نے سماج کو بیدار کیا ،جس میں سوامی ویویکا نند ،دیانند سرسوتی اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم لوگ شامل تھے ۔ان سب نے ظلم و زیادتی اور سماجی نابرابری کے خلاف جو آواز اٹھائی اسے قطعاً دہشت گردی نہیں کہا جائے گا ۔ہندو بھائیوں کی تاریخ میں مہابھارت ہو یا شری رام کے ذریعہ لنکا کو آگ لگادینے کا واقعہ ہو اسے برائیوں کے خلاف جدو جہد کہا جائے گا دہشت گردی ہرگز نہیں ۔مگر اس کو مقدس عمل کہنے والے ہی جب مسلمانوں کی طرف سے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تو اسے دہشت گردی کہنے لگتے ہیں ۔ان کا یہ موقف عدل کے خلاف ہے ۔گزشتہ ستر سال سے اسرائیل کی جانب سے معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم کیا جارہا ہے ۔موجودہ جنگ میں بیس ہزار سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں جن میں چالیس فیصد بچے اور چالیس فیصد خواتین ہیں ،ہسپتال ،اسکول اور مساجد کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔امن عالم کے ٹھیکیدار اسے اسرائیل کی دفاعی جنگ کہہ رہے ہیں ۔جب کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل غاصب ہے ۔اس کے خلاف حماس یا دیگر تنظیموں کی جانب سے کی گئی کارروائی اپنی آزادی و خود مختاری اور اپنی زمین سے ظالم کا قبضہ ختم کرنے کے لیے کی جارہی ہے ۔افسوس ہوتا ہے جب ہندوستانی میڈیا اور ذمہ دارا فراد اسے دہشت گردی کا نام دیتے ہیں ۔اگر اپنے وطن کی آزادی کے لیے کسی قابض اور غاصب سے جنگ کرنا آتنک واد اور دہشت گردی ہے تو پھر انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی جانب سے کی گئی کارروائی کو کیا کہا جائے گا ۔ہم جنگ آزادی کے شرکاء کو مجاہدین آزادی کس منھ سے کہتے ہیں ۔ان کے مجسموں پر پھول کی مالائیں کیوں چڑھاتے ہیں ۔جہاد ایک مقدس عبادت ہے ۔اسے بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہئے ۔ظلم کے خلاف آواز اٹھانا،بلکہ اسے طاقت سے روکنا تمام مذاہب میں مطلوب ومحمود ہے۔تمام مذاہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے پیشوائوں نے ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی ہے بلکہ بزور ظالم کو کچلنے کے بہترین نمونے چھوڑے ہیں۔ہر انصاف پسند کا فرض ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کھڑا ہواور ظلم کے خلاف جد جہد میں حصہ لے،وہ حصہ داری زبانی بھی ہوسکتی ہے،مالی بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی،امن و آشتی کے لیے ضروری ہے کہ ظلم کو کسی بھی پنپنے نہ دیا جائے۔

Related posts

How can the foe of Allah and His Messenger dare to show even a hint of sympathy towards Muslims

Paigam Madre Watan

شخصیت پرستی کا بڑھتارجحان نئی نسل کے لیے خطر ناک ہے

Paigam Madre Watan

آئین ہند: ہندوستانی جمہوریت کا سنگ بنیاد

Paigam Madre Watan

Leave a Comment

türkiye nin en iyi reklam ajansları türkiye nin en iyi ajansları istanbul un en iyi reklam ajansları türkiye nin en ünlü reklam ajansları türkiyenin en büyük reklam ajansları istanbul daki reklam ajansları türkiye nin en büyük reklam ajansları türkiye reklam ajansları en büyük ajanslar