یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب انسانوں کو ایک جیسا مال ودولت نہیں دیاہے۔ بل کہ وہ کسی کو بہت زیادہ ،تو کسی کو اس سے کچھ کم تو کسی کو بہت کم دیاہے:یعنی مالی اعتبار سے اللہ نے انسانوں کے کئی ایک طبقات بنائے ہیں۔
تو جس شخص کو مالک اکبر نے اس قدر مال و منال عطا کیاہو کہ وہ نکاح کرسکتا ہو:یعنی اپنی زوجہ محترمہ کو نفقہ وسکنی اور مہر ادا کرنے نیز باہمی اختلاط سے مستفاد ہونے والی اولاد کو بھی نفقہ وسکنی اور علاج و معالجہ کی فراہمی کی استطاعت و قدرت رکھتاہو،تو پھر ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ نکاح کرے! اور جس شخص میں اس کی استطاعت و قدرت نہ ہو،تو پھر ایسے شخص کے لیے مناسب ہے کہ وہ روزہ رکھے؛کیوں کہ روزہ ایک ایسی بدنی عبادت ہے کہ جس سے جنسی خواہشات پر شدید ضرب پڑتاہے،جس کی بنا نفس کمزور ہوجاتاہے۔
نکاح کے دو بڑے فائدے ہیں : ایک یہ کہ’ نکاح’ نظریں’ جھکا دیتا ہے اور دوم یہ کہ ‘نکاح ‘انسان کو بدکاری اور زنا کاری سے محفوظ رکھتاہے۔ نکاح کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت ہے۔آپ نے نوجوان مسلمانوں کو اس کی ترغیب دی ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کا ارشاد ہے:”اے جوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص نکاح کی استطاعت رکھتاہو،اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے،کیوں کہ نکاح کرنا،نظر کو جھکاتاہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتاہے۔اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا ہو،اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے؛کیوں کہ روزہ رکھنا انسانی خواہشات کے لیے توڑ ہے۔(متفق علیہ)
حدیث مبارکہ کی عبارت: عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه مرفوعاً: «يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج؛ فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم؛ فإنه له وِجَاءٌ»[متفق عليه]