تحریر:مطیع الرحمن عزیز
9911853902
جامعہ سلفیہ بنارس پر کل ایک پوسٹ فیس بک کے حوالے کیا تو لوگ ذاتیات پر اتر آئے۔ کہتے ہیں کہ جب انسان بے دلیل ہوجاتا ہے تو گالی گلوج اور چیخ وپکار سے کام لیتا ہے، کیونکہ اس کے پاس رکھنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ہوتا ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کا میں شکر گزار ہی ہوتا ہے، کہ ان کی ہی دی گئی ہفوات سے جذبہ پاکر کچھ تحریر کرنے کی جسارت کر ہی ڈالی۔جامعہ سلفیہ میرا بھی مادر علمی ہے، میرے دل میں بھی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے مادر علمی کو پھلتے پھولتے دیکھوں۔ ایک طرف اغیار کے اداروں کو روز ترقی پذیر ہوتے دیکھتا ہوں تو اپنے گریبان میں بھی جھاکنے کا من کرتا ہے، اور جب ہم اپنی گریبان میں جھانکتے ہیں تو سوائے خودغرضی اور خود پسندی کے کچھ نہیں پاتے ۔ ایک طرف دیکھتے ہیں مادر علمی جامعہ سلفیہ بنارس پر ازدہے کی طرح چالیس سال سے کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے عبد اللہ سعود صاحب ہیں۔ جنہوں نے اپنے مخلص اقرباسے جامعہ سلفیہ کی باگ ڈور جبرا حاصل کی تو سمجھ بیٹھے کہ جامعہ سلفیہ ان کا آبائی جاگیر ہے۔ اب عبد اللہ سعود صاحب اپنے بیٹوں کو جامعہ سلفیہ کی گدی پر براجمان کرنے کے لئے سعودی کے کسی جامعہ سے سند دلا رہے ہیں تاکہ تخلص اور لقب کی مدد سے کرسی پر بیٹھنے میں حرج پیش نا آئے۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ جامعہ سلفیہ میرا بھی مادر علمی ہے، اس کا درد ہر طالبعلم کی طرح مجھ میں بھی ہے۔ مگر جب میں دیکھتا ہوں کہ تمام ہندستان بھر کے جامعات و مدارس کے فارغ التحصیل طلبا کے اداروں سے ان کو فون کال آتے ہیں، ان کو دعوتیں پیش کی جاتی ہیں، ان سے مشورے اور امداد طلب کئے جاتے ہیں، ان کے جامعات اور مدارس کو روز پھلتے پھولتے دیکھتے ہیں تو ہمارے جامعہ نے میری نظروں کے سامنے کتنی ترقی کی ایک انسان ہونے کی وجہ سے یہ خیال ضرور آتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس ترقی کے نام پر ایک اینٹ رکھتے ہوئے کم از کم تیس سالوں سے ہم نے نہیں دیکھا۔ اسی طرح اگر طلبا کے تعداد کی بات کی جائے تو پانچ سو سے سات سو کی تعداد آج پچاس سالوں سے منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔ اساتذہ کے تعلق سے بات کی جائے تو جو اساتذہ جناب عبد الوحید سلفی رحمہ اللہ ناظم صاحب کے وقت میں رکھے گئے تھے، ان کے فوت ہو جانے یا ان کے منتقل ہوجانے کے بعد کتنے قابل اساتذہ کی تقرری جامعہ سلفیہ میں ہوئی؟ میرے خیال سے ہر شخص کو اس بات پر غور کرنا اور سوچنا چاہئے۔ میں تفصیل کے طور پر کہنا چاہوں گا کہ ازہری صاحب کی بزرگی، دور اندیشی اور ان کی قابلیت کی جگہ کس کو دی گئی؟ جناب مولانا عبد السلام صاحب مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ کی جگہ کس محدث کو دی گئی؟ جناب رئیس الاحرار ندوی صاحب رحمہ اللہ جیسے مصنف کی جگہ پر کس کو لایا گیا؟ جناب علی حسین صاحب سلفی، جناب عبد الوہاب صاحب حجازی، مولانا نعیم الدین صاحب مدنی، جناب مولانا محمد صاحب مدنی، جناب اصغر علی امام مہدی صاحب سلفی، مولانا مجتبی صاحب مدنی، جناب دکتوبر رضاءاللہ صاحب مدنی، مولانا عزیز الرحمن صاحب سلفی، جناب مولانا محمد حنیف صاحب مدنی جیسے درجنوں عالمی شہرت یافتہ علماءکرام کی جگہ کس کو لایا گیا؟ کب اشتہار جاری کیا گیا؟ اور کب ان کا انٹرویو لیا اور کتنے لوگوں کا انتخاب عمل میں آیا؟ تو جواب ہوگا کچھ نہیں ایک قابل علم کا بھی انتخاب نہیں ہوا۔ جاہل اور ڈکٹیٹر ناظم کی ملوکیت و خلافت اور بادشاہت میں قابل اور جید علما کا انتخاب ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ قابل اور جید علما جاہلوں کیلئے آئینہ ہوسکتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ناظم صاحب نے بزرگ علماءسے چھٹکارہ پائی ہے۔ پھر سے وہی غلطی کر بیٹھیں گے بھلا؟ اگر جامعہ سلفیہ میں کسی کا انتخاب ہوا تو چند ایک خصیہ بردار چاپلوسوں کے علاوہ کسی کا نہیں۔ مفتی کے نام پر نوعمر غیر تجربہ کار جامعہ کے ایک طالبعلم کو رکھ لیا گیا۔ محرر کی جگہ پر خود ایڈیٹر بن بیٹھے۔ لوگوں کی تصنیفات کو غصب کے ساتھ اپنے نام سے شائع کرایا گا۔جامعہ کا پریس تک بیچ ڈالا، یہ ہے جامعہ سلفیہ کا معیار؟ اور وہ تھا جامعہ سلفیہ بنارس کا معیار ۔
میں نے موضوع ”ایک اینٹ رکھنے کا ثبوت “ قائم کرتے ہوئے جواب مانگا ہے کہ ایک ہی اینٹ رکھنے کا ثبوت دیا جائے جناب عبد اللہ سعود صاحب کی جانب سے۔ اس کے علاوہ طلبا کے اضافہ ، اساتذہ اور اسٹاف کا اضافہ؟ لائبریری میں ایک کتاب کے اضافے کا ثبوت۔ ہاں لائبریری سے یاد آیا! جس ادارے کی لائبریری میں ایک کتاب رکھنے کی جگہ نا ہو ، منع کر دیاجائے، اور انتظامیہ کے دل میں اتنی جگہ نا ہو کہ کسی مولانا کے اپنے شائع شدہ مضمون کی زیراکس طلب کرنے پر یہ کہہ کر منع کر دیا جائے کہ ناظم صاحب نے کسی بھی طرح کی تحریر کو مشترک کرنے سے منع کیا ہے۔ افسوس صد افسوس؟ کہاں جامعہ سلفیہ جیسا مرکزی دار العلوم بنارس؟ اور وہاں کے بے تاج بادشاہ کی یہ کج روی اور سطحی سوچ۔ اللہ اکبر۔ کہاں سے لاتے ہو جناب اتنی تنگ نظری؟ کہاں لے جاﺅ گے مرکزی دار العلوم کو؟ جسے نوگڈ اور سدھارتھ نگر والوں نے آپ کے دامن میں بڑے خلوص کے ساتھ پیش کیا تھا کہ ”لے جائیے ہم جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم کو اللہ کیلئے آپ کو سپرد کرتے ہیں۔ آپ اسے چلائیے۔ پہلے ناظم صاحب جناب عبد اللہ سعود صاحب کے والد گرامی بزرگوار جناب عبد الوحید صاحب سلفی نے جہاں چھوڑا تھا آج چالیس سال گزر جانے کے بعد نا ایک ناظم تبدیل ہوا اور نا ہی ایک اینٹ کی ترقی ہوئی۔ نا ایک اسٹاف یا ایک قابل معیاری استاذ کو تلاش کیا گیا۔ اللہ مرحومین کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔ سلف صالحین ہزاروں کلو میٹر سفر کرکے قابل اساتذہ کو تلاش کرنے جاتے تھے، اور ان کے مطالبات کے مطابق ان کو سہولیات دے کر جامعہ سلفیہ لاتے تھے۔ لیکن ہمارے عبد اللہ سعود صاحب انتظام اور سہولت کے نام پر اگر کسی طالبعلم کو ضرورت پڑ جائے تو اسپتال پہنچانے تک کا انتظام نہیں ہے۔
واللہ عبد اللہ سعود صاحب کی نظامت میں جامعہ سلفیہ بنارس کیلئے اکثریت کو کسی بہتر کی امید اسی طرح نہیں ہے، جس طرح نریندر مودی اور یوگی کے گھر میں کلکاریاں گونجنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ لیکن درد ہے کہ چھلک پڑتا ہے۔ اور یہ چیخ و پکار مجھ جیسے صحافی کے علاوہ کوئی کر بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ نا مجھے کسی ناظم اور انتظامیہ کمیٹی کی خصیہ برداری کی ضرورت ہے اور نہ ہی مجھے اپنے مسجد کمیٹی کا ڈر ہے۔ میرے علاوہ کوئی جامعہ سلفیہ یا دیگر کسی ادارے پر تحریر کر بھی نہیں سکتا۔ کوئی مولوی عالم بے چارہ کیسے کچھ لکھ دے گا؟ اگلے دن اخراج کا نوٹس اس کی مسجد کمیٹی یا مدرسہ کے شیخ الجامعہ لے کر فجر سے پہلے دروازے پر کھڑے ملیں گے۔ ”یہ لو ناظم صاحب نے آپ کو نکال دیا ہے“۔ اور یہیں تک بس نہیں۔ عبد اللہ سعود صاحب ہوں گے تو اس عالم کی جاری تنخواہ احیاءالتراث سے بند کروا کر ہی دم لیں گے۔ گویا عبد اللہ سعود صاحب صرف ناظم اور ڈکٹیٹر ہی نہیں بلکہ رزاق بھی بن بیٹھے ہیں۔ عبد اللہ سعود صاحب جیسے تنخواہ رکوانے والے نظماءسے میں کہتا ہوں کہ پتہ کروبھائی! آپ نے جس جس بھی عالم کی تنخواہ رکوانے کی کارروائی کئے ہیں، تنخواہ رکوانے کے بعد کتنا وقت ایسا گزرا ہے جب اس عالم اور شیخ نے روٹی نہیں کھائی ہو؟
غرض کہ میں نے عبد اللہ سعود صاحب کے چندہ کے اپیل کیلئے جاری کئے گئے رقعہ پر چند سطور کیا لکھ دیا، الگ الگ اداروں کے انتظامیہ کے لوگ مجھ پر پل پڑے۔ اللہ کا خوف کرو۔ اور کوشش کرو خلوص وللہیت دل میں جاگزیں ہو۔ کچھ ترقی کے کام ہو سکیں۔ فلاح وکامرانی ہماری قوم کا مقدر ہو۔ دیگر قوموں میں اپنے اداروں اور ملت کے لوگوں کیلئے ہمدردی ہے، لوگ اپنوں سے رابطہ کرکے ان کے مشوروں پر کام کرتے ہیں۔ مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے مشوروں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ ادارے اپنے فارغین کی مدد سے ترقی پذیر ہو رہے ہیں۔ مرکزی ادارے کا یوں سوشل میڈیا پر چندہ کیلئے اشتہار جاری کرنا بہت اوچھی حرکت ہے۔ پچاسوں سال گزر گئے۔ ہر سال کے پیچھے جامعہ سلفیہ بنارس کی ایک چھوٹی جائیداد بنائی گئی ہوتی تو آج پچاسوں ایکڑ زمین پر پھیلاہوا پراپرٹی کا کام اور سیکڑوں فلیٹ ہوتے۔ انہیں تجارتی مصرف میں لا کر الگ الگ تعلیمی شعبے قائم کئے جاسکتے تھے۔ ابنا کی مدد سے جامعہ سلفیہ آج بھی دوڑ سکتا ہے۔ لیکن جناب عبد اللہ سعود صاحب جو اصل میں ڈکٹیٹر صفت خود پسند بے تاج ناظم ہیں نہیں کریں گے۔ کیونکہ ان کی تاعمر کرسی کی محبت ہی بتاتی ہے کہ بدعنوانیاں بے شمار ہیں۔ میں کہتا ہوں دنیا کا رواج یہی ہے کہ جو پانی ٹھہرا ہوا ہوتا ہے وہ بدبو دار ہو جاتا ہے، اور جو منصب جمود کا شکار ہو، بدعنوانی اس کا محور ہوتا ہے۔ ان سب چیزوں کو غلط ثابت کرنا چاہیں تو عبد اللہ سعود صاحب پاک صاف شفاف ملک گیر سطح کی میٹنگ طلب کریں اور اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے تا عمر جامعہ سلفیہ کی طرف منہ اٹھا کر نا دیکھنے کی قسم کھائیں۔ ان شااللہ